ضلع کچھی کا تاریخی مقبرہ تباہی کے دہانے پر 

ذہن میں سوال آتا ہے کہ یہ مقبرہ کس کا ہے اور کس نے تعمیر کیا؟ جب کہ اس کے کتبے اور دوسرے نشانات معدوم ہوچکے ہیں۔

اس گنبد نما عمارت کے اندر کچھ قبریں بنی ہوئی ہیں، جو خستہ حال ہیں اور اس کے آس پاس بھی کچھ قبریں موجود ہیں(تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں متعدد آثار قدیمہ کے ساتھ ساتھ قدیم تاریخی تہذیب کا شاہکار مہرگڑھ بھی واقع ہے، جہاں واقع ایک مقبرہ خصوصاً فن تعمیر کا نمونہ ہے۔

اس مقبرے کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ضلع کچھی کی تحصیل شہر بھاگ کے آخر میں اونچے ٹیلے پر واقع یہ مقبرہ کس کا ہے اور اسے کس نے تعمیر کروایا؟

اس گنبد نما عمارت کے اندر کچھ قبریں بنی ہوئی ہیں، جو خستہ حال ہیں اور اس کے آس پاس بھی کچھ قبریں موجود ہیں۔ اس مقبرے کے کتبے اور دوسرے نشانات معدوم ہوچکے ہیں اور چھت میں بھی سوراخ ہوچکا ہے۔ صرف دو کتبے باقی رہ گئے ہیں، جن پر فارسی میں عبارتیں درج ہیں، تاہم وہ پڑھی نہیں جاسکتیں۔ 

 مقامی افراد نے بتایا ہے کہ اس مقبرے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان ’شہیدوں‘ کی قبریں ہیں جنہوں نے زمانہ قدیم کی کسی جنگ میں حصہ لیا تھا۔

تاریخی اعتبار سے اس معاملے میں کیا شواہد ملتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے معروف مصنف اور تاریخ کا علم رکھنے والے محمد پناہ بلوچ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ شہدا کی قبریں نہیں بلکہ خان آف قلات کے خاندان والوں کی قبریں ہیں۔‘

پناہ بلوچ نے بتایا کہ یہ تقریباً ڈھائی تین سوسال پرانا مقبرہ ہوسکتا ہے، تاہم اس پر باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم توجہی اور دیکھ بھال نہ ہونے سے بہت سے تاریخی آثار مٹتے جارہے ہیں۔ ضلع کچھی میں بہت سے آثار ہیں اور یہاں پانچ سے 10 کلومیٹر پر آپ کو کوئی تاریخی مقام مل جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پناہ بلوچ نے بتایا کہ اس مقبرے کے طرز تعمیر کو ’کلہوڑا اور مغل طرز تعمیر‘ کہتے ہیں، جس میں مقبرے گنبد نما اور بہت بڑے بنائے جاتے تھے۔

یاد رہے کہ ضلع کچھی کسی زمانے میں جنگوں کا مرکز رہا ہے اور یہاں سے فوجی قافلے سندھ اور دوسرے علاقوں کی طرف جاتے تھے۔

اسی طرز کا ایک مقبرہ گنداواہ بھی ہے جسے موتی گہرام کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔ اس کی طرز تعمیر بھی بھاگ کے اس مقبرے سے مماثلت رکھتا ہے۔

یہ مقبرہ ایک باقاعدہ محفوظ جگہ پر ہے اور اس کے چاروں کونوں پر بھی مورچہ نما عمارت بنی ہے جبکہ چھت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی اینٹیں گر رہی ہیں۔

مقامی افراد نے بتایا کہ اس کے داخلی دروازے کے قریب دونوں اطراف سے سیٹرھیاں بنی ہیں، جو ایک عرصے تک قابل استعمال تھیں، لیکن چھت میں سوراخ کے باعث پانی آنے سے ان کو نقصان پہنچا ہے۔ 

پناہ بلوچ نے بتایا کہ اگر ان تاریخی عمارتوں پر توجہ دی جائے تو ہماری تاریخ کے اہم حصے اور آثار قدیمہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

 

ماہرین نے اس کی تعمیر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ پانی اور دیگر آفات عمارت کو نقصان نہ پہنچائیں، اس لیے اس کو ایک بڑے ٹیلے پر بنایا گیا ہے اور اس کے سامنے شہر اور پیچھے قدرتی جنگل ہے۔ 

اس کو بنانے کے لیے بڑی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں، جو کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی مضبوط ہیں۔

اس مقبرے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک اور مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جو موسمی حالات کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس کے آثار مٹ چکے ہیں۔ صرف ایک دیوار باقی رہ گئی ہے۔ 

موسمی حالات کے علاوہ تاریخی مقامات کو غیر قانونی طور پر نوادرات تلاش کرنے والے افراد بھی نقصان پہنچاتے ہیں، جو تاریک راتوں میں آکر کھدائی کرکے نوادرات تلاش کرتے ہیں۔

ضلع کچھی کا صدر ڈھاڈر، جہاں خان آف قلات سردیوں کے موسم میں آکر رہائش اختیار کرتے تھے، اس کے آس پاس بھی بہت سے تاریخی آثار موجود ہیں جو کام نہ ہونے کے باعث مٹتے جارہے ہیں۔

 ماہر آثار قدیمہ شاکر نصیر نے بتایا: ’اس علاقے میں کام نہیں ہوا۔ جو محفوظ مقامات ہیں، ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ضلع کچھی اپنے وسیع میدانی علاقے اور تاریخی مقامات کے حوالے سے ایک اہم خطہ ہے۔ جن میں مہرگڑھ بھی شامل ہے۔‘

مہرگڑھ کو موہن جودڑو سے بھی قدیم تہذیب کہا جاتا ہے۔ یہ مقبرہ اور اس کے اندر موجود قبریں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ یہ کسی زمانے میں شاہی خاندان کے افراد کی رہائش گاہ رہی ہے جن کے لیے اتنے اہتمام سے یہ خوبصورت عمارت بنائی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی