کچھی میں زمینوں کے تنازعے پر مسلح افراد کا کسانوں پر حملہ

مسلح افراد کو ایک شخص نے کھیتوں پر کام کرنے والے کسانوں پر فائرنگ کرنے کی ہدایت کی اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی

لیویز کے مطابق 12 نومبر کو بالاناڑی کے علاقے موضع اعوان میں واقعہ پیش آٰیا جہاں  پر مسلح افراد نے کسانوں پرفائرنگ کی (اے ایف پی)

12 نومبر کا دن عام سا دن تھا۔ جب بچل اور اس کے بیٹے اپنے کھیت میں معمول کے مطابق کام کرنے نکلے اور وہ گھاس کی کٹائی کر رہے تھے کہ اس دوران پانچ گاڑیاں آ کر رکیں اور مسلح لوگ اتر کر سامنے آ گئے۔ 
مسلح افراد کو ایک شخص نے کھیتوں پر کام کرنے والے کسانوں پر فائرنگ کرنے کی ہدایت کی اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ 
کسانوں کو جان بچانے کا موقع بھی نہیں ملا اور فائرنگ سے تین افراد موقعے پر ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے۔ مسلح افراد فائرنگ کے بعد گاڑیوں میں بیٹھ کر واپس چلے گئے۔
یہ واقعہ بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے بالاناڑی میں پیش آیا۔ واقعے کے خلاف کسانوں کے لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ قومی شاہراہ بلاک کر کے احتجاج کیا، تاہم بعد ازاں لواحقین مقدمہ درج کرنے کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کر کے لاشوں کو تدفین کے لیے گئے۔ 
واقعے کے حوالے سے رند قبیلے کے سربراہ اور رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند نے بھی کوئٹہ میں گذشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کروائیں۔ 
سردار یار محمد رند نے کہا کہ متاثرہ افراد نے واقعہ سے پہلے کوئٹہ میں آ کر پریس کانفرنس میں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ وہی ہوا جن کا ان کو خطرہ تھا۔ 
انہوں نے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے ملزمان کی گرفتاری اور متاثرین کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ نہ ہوا تو میں پورے کچھی کے عوام کو آپ کے دروازے پر لے آؤں گا۔ 
ادھر لیویز تھانہ بالا ناڑی میں واقعہ کا مقدمہ درج ہوا ہے، جس میں مدعی غلام محمد نے واقعے کے حوالے سے تفصیلات کے بارے میں بتایا۔  
غلام محمد نے لیویز کو بتایا کہ 12 نومبر کو وہ اور اس کے چچا زاد بھائی اپنی زمینوں پر کام کرنے گئے تھے۔ اس دوران دوپہر کے چار بجے کے قریب وہ گھاس کاٹ رہے تھے کہ پانچ گاڑیاں آ کر رکیں۔ ان سے مسلح افراد نکلےاور انہوں نے زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں پر آتے ہی فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ غلام محمد نے بچاؤ بند کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچائی۔ 
انہوں نے لیویز کو مسلح افراد کے نام بھی بتائے، جس پر مقدمے کا اندراج کر دیا گیا ہے۔
اعوان قبیلہ کچھی میں 
معروف لکھاری اور دانشورعابد میر نے اعوان قبائل کی کچھی میں موجودگی کے حوالے سے بتایا کہ کچھی میں بلوچی کے ساتھ سندھی، سرائیکی بولنے والے جاموٹ قبائل کی اکثریت ہے۔ یہ یہاں کی قدیم آبادی ہے اور یہ قبائل صدیوں سے باہمی سماجی تال میل رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان قبائلی لڑائیاں فیوڈل ازم کے پنجے گاڑنے کے بعد سے ہوتی آئی ہیں۔ 
بلوچ ریاست کی تشکیل کے بعد یہاں زمینوں پہ بلوچ قبائل کا قبضہ ہوا۔ جاموٹ قبائل کی اکثریت کسان ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اعوان بھی بستے ہیں، اور یہ دونوں قبائل سرائیکی بولتے ہیں۔ 
عابد نے بتایا کہ یہ لوگ انگریزوں کے دور میں ہندوستانی اور موجودہ پاکستانی پنجاب سے یہاں لا کر بسائے گئے۔ ایک صدی کا عرصہ گزرنے کے باعث یہ یہی لوگ یہاں ہی رچ بس چکے ہیں۔ 
وہ مزید کہتے ہیں کہ کچھی کا اوپری علاقہ بالا ناڑی کہلاتا ہے، یہاں مختلف حصوں قدیم قبائل کی زمینیں ہیں۔ چھوٹی بڑی زمینداریاں ہیں اور صدیوں سے آباد کسان جو نسل در نسل سے اس زمین کو آباد کرتے آئے ہیں، بستے ہیں۔ ہر قصبہ متعلقہ قبیلے کے نام سے منسوب ’شہر‘ کہلاتا ہے۔ ان میں حاجی شہر سب سے بڑی اور قدیمی آبادی کا شہر ہے۔ جس کے آس پاس دیگر قدیم بستیاں آباد ہیں۔
یہاں سے آگے دوسا کی طرف لمجی نام قصبہ ہے۔ اس کے پاس اعوانوں کی قدیم آبادی ہے۔ مقامی لوگ اسے ’آوانڑیں دا شہر‘ بھی کہتے ہیں۔ یہاں کی زمینیں قدیم عہد سے دینار زئی (بنگلزئی قبیلے کی شاخ) قبائل کی ملکیت ہیں اور اعوان یہاں کے جدی پشتی بکریوں کے گلہ بان ہیں۔ 
تنازع کیسے پیدا ہوا؟
مقتولین کے چچازاد بھائی غلام محمد نے ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کو بتایا کہ زمین کا تنازع دینار زئی قوم کے ساتھ چل رہا ہے، جو زمین کے دعوےدار ہیں۔ ہمارا کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ دینارزئی قبیلے نے ہمیں اطلاع کیے بغیر عاصم کرد گیلو کو یہ زمین فروخت چوری چھپے فروخت کی ہے، جس کے بارے میں ہمیں تین سال تک معلوم نہیں تھا۔ اب عاصم کرد گیلو آ کر خود کو مالک کہہ رہا ہے، جو اصولاً مالک نہیں بن سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


 انہوں نے بتایا کہ وقوعے کے روز بھی عاصم کرد گیلو اپنے محافظوں کے ہمراہ آئے تھے، جنہوں نے فائرنگ کر کے میرے چچا زاد بھائیوں میں سے محمد فضل، سچل اور سومر کو قتل کر دیا۔ دو زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ 
غلام محمد کے بقول: یہ زمین ان کی ملکیت ہے اور وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں، اگر کوئی مالک ہے تو اپنے ساتھ ثبوت لائے، اس طرح طاقت سے قبضہ کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ مقدمہ درج ہو گیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ 
 لیویز کیا کہتی ہے؟
لیویز تھانہ بالاناڑی کے نائب تحصیلدار نیاز محمد نے بتایا کہ تین افراد کے قتل کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ 
نیاز محمد نے بتایا کہ 12 نومبر کو یہ واقعہ بالاناڑی کے علاقے موضع اعوان میں پیش آیا جہاں پر مسلح افراد نے کسانوں پر فائرنگ کی۔ اس میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔ 
انہوں نے بتایا کہ عینی شاہدین نے ملزمان کی تعداد سات سے آٹھ بتائی ہے، جن میں کچھ کا تعلق ضلع کچھی کے مخلتف علاقوں سے ہے۔ جو نامزد ہیں ان کی تلاش جاری ہے۔ 
نیاز محمد نے اعتراف کیا کہ مقدمے میں نامزد افراد بااثر ہیں۔ گرفتاری میں مشکلات تو ہیں، مگر کچھی میں ان کی تلاش جاری ہے۔ جو ضلعے سے باہر ہیں، ان کے لیے دوسروں شہروں کی پولیس سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔ 
نائب تحصیلدار کے مطابق: مقتولین کا زمین کا تنازع عرصے سے چل رہا ہے۔ اس سے قبل مسئلے پر اس طرح کا واقعہ پہلے پیش نہیں آیا۔ 
تاریخ دان اور مصنف عابد میر کہتے ہیں کہ ضلع کچھی میں اس طرح کے جھگڑے عام ہیں۔ اس لیے وہاں کوئی ایک سردار یا جاگیردار مضبوط نہیں، جن میں اکثر زمینیں جاموٹ قبائل کے پاس ہیں یا پھر براہوی بولنے والے بلوچ قبائل کے پاس ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان