کشمیر، بھارت اور نسل کشی

عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ نے ایک رپورٹ میں بھارت میں گذشتہ ایک دہائی سے جاری اقلیتوں کے ساتھ مظالم کی تفصیل بتاتے ہوئے دس ایسے نکات کی نشاندہی کی جو نسل کشی کے آغاز کی علامت بتائی جاتی ہیں۔

برطانیہ کی لافرم سٹوکس وائیٹ کی کشمیر پر رپورٹ کا سرورق(سٹوکس وائیٹ)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 


بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات کی سنگینی کے باوجود خاموشی محسوس کی جا رہی ہے یا عوام پر جیسے خوف سا طاری ہوا ہے۔ اس کے برعکس خطے کی صورت حال پر امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں آئے روز تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

آپ نے یہ خبریں سُنی ہوں گی کہ برطانیہ کی ایک لا فرم نے کشمیر میں جاری جنگی جرائم سے متعلق لندن پولیس میں ایک کیس درج کیا ہے یا امریکی کانگریس میں ممکنہ نسل کشی کے خدشات پر حال ہی میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔

چند ہفتے قبل یعنی 12 جنوری کو امریکی کانگریس میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق، نسل کشُی سے متعلق عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ اور تھنک ٹینکس سے وابستہ دانشوروں کی پہلی نوعیت کی ایک کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں ہندووں سمیت مختلف مذاہب کے معروف مصنف، دانشوروں اور سیاسی ماہرین کو دعوت دی گئی تھی۔

کانفرنس کا مقصد بھارت میں ’ممکنہ نسل کشُی کے خدشات‘ پر اظہار خیال کرنا تھا جس کی تنبیہ عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں دی ہے اور کہا ہے کہ روانڈا اور میانمار کے بعد بھارت میں ممکنہ نسل کشی کا ایک مربوط عمل شروع ہونے کا خدشہ ہے جس پر نوٹس نہ لینے کی صورت میں حالات پر قابو پانا مشکل ہوسکتا ہے۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں گذشتہ ایک دہائی سے جاری اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ مظالم کی تفصیل بتاتے ہوئے دس ایسے نکات کی نشاندہی کی ہے جو نسل کشی شروع ہونے کی علامت بتائی جاتی ہیں۔

جینوسائیڈ واچ کے سربراہ گریگری سٹانٹن نے کانفرنس میں اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دہائیوں قبل عالمی برادری کو وارننگ دی تھی۔ اس کا آغاز سن 2002 میں گجرات میں قتل عام سے ہوا ہے جس میں ایک ہزار سے زائد مسلمان ہلاک کر دیے گئے تھے۔

بقول سٹانٹن ’ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم کی مسلم مخالف پالیسی کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی سیاسی ساخت مضبوط بنا دی ہے۔ بی جے پی نے اس سلسلے میں دو اہم اقدامات اٹھائے ہیں: ایک جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنا اور دوسرا ملک کے اندر شہری ترامیم کا قانون بنانا۔ دونوں کا مقصد مسلمانوں کو بےاختیار اور اپنے حقوق سے بےدخل کرنا ہے۔ آسام میں پہلے ہی دو لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے بےدخل کر کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، بالکل اس طرز پر میانمار میں حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے حقوق پر شب خون مار کر انہیں ملک سے بعد میں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ نسل کشی محض ہلاک کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک قوم کو نسلی، مذہبی اور لسانی طور پر ختم کرنا ہوتا ہے جس کی تصویر بھارت میں ملتی ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس کا شدید نوٹس نہیں لیا تو ہندوستان کے 20 کروڑ اقلیتیں اپنی زمین، شہریت اور انسانی حقوق سے محروم کر کے ہجرت پر مجبور کی جاسکتی ہیں۔‘

جینوسائیڈ واچ کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’نسل کشی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے جو ایک منظم منصوبے کے تحت شروع کیا جاتا ہے۔ ہم نے ابھی صرف اس کی وارننگ دی ہے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ کیا جموں و کشمیر یا آسام میں نسل کشی شروع ہوچکی ہے البتہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے نسل کشی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔‘

گریگری سٹانٹن نے امریکی کانگریس سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے کو بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھائے اور اس بارے میں وضاحت طلب کرے۔

ہندوز فار ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنیتا وشواناتھن نے کانفرنس میں ہجوم کے تشدد کے ان واقعات کی تفصیل پیش کی جن کے دوران مسلمان، دلت، آدی واسی، خواتین، ایل جی بی ٹی کیو اور تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں ہری دوار میں دھرم سنسدوں یا مذہبی مجالس کا ذکر کیا جن میں ایک ہندو رہنما یتی نرسنگ آنند نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی تھی۔

یتی نرسنگ آنند وہی شخص ہے کہ جس نے 14 برس کے مسلمان بچے کی مندر کے نل سے پانی پینے پر شدید پٹائی کی تھی اور جنہیں وشوا ہندو پریشد کی امریکی شاخ نے امریکہ میں ہندووں کی مختلف اجلاسوں میں تقریر کرنے کی دعوت دی ہے۔

اسی دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بھارتی امور کے ماہر گوند آچاریہ نے خبردار کیا ہے کہ گذشتہ برس سے جو دھرم سنسدھ یا مذہبی اجلاس بلائے جا رہے ہیں وہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک مربوط منصوبہ ہے تاکہ ہندووں میں اپنی شناخت، مذہب اور وجود کے بارے میں جنونی جذبات بھڑکائے جائیں اور خبردار کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں حالانکہ بھارتی مسلمان آبادی کا صرف 14 فیصد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’دھرم سنسد میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے پر ہندووں کو اُکسایا جاتا ہے۔ عیسائیوں پر کئی حملے کیے گئے ہیں جس کی حالیہ مثالیں کرسمس پر گرجا گھروں کے سامنے دنگے فساد کروانے سے ملتی ہیں۔ ریاست چھتیس گڑھ میں عیسائی مخالف جلوس نکالے گئے، عیسائیوں پر جوتے پھینکے گئے اور انہیں ہندوں کو مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگایا گیا۔‘

گذشتہ برسوں سے ’لو جہاد‘ کی مہم کے بعد بھارت کی بیشتر ریاستوں میں مذہب تبدیل کرنے سے متعلق سخت قوانین بنائے گئے ہیں جو خود ہندوستانی آئین اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے آرٹیکل 18 کی خلاف ورزی بتائے جاتے ہیں۔

نسل کشی سے متعلق اس کانفرنس کے ایک ہفتے بعد برطانیہ کی انسانی حقوق کی ایک لا فرم سٹوکس وائیٹ نے میٹروپولیٹن پولیس میں ایک کیس دائر کیا ہے جس میں کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث بھارتی فوج کے سربراہ اور وزیر داخلہ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سٹوکس وائیٹ نے کہا ہے کہ اس نے میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم کے سیکشن میں ایک مستند دستاویز جمع کرائی ہے جس میں فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند ناراونے اور وزیر داخلہ امت شاہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ ان کی سربراہی میں کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور شہریوں پر تشدد اور ہراساں کرنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی اخبار دا واشنگٹن پوسٹ نے اس سلسلے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سٹوک وائیٹ نے اپنی دستاویز میں تقریبا دو ہزار شواہد کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے 2020 اور 2021 کے دوران جمع کی ہیں۔ دستاویز میں آٹھ سینیئر نامعلوم افسران کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنگی جرائم اور تشدد کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا اور کہا ہے کہ اسے رپورٹ کے بارے میں علم نہیں ہے۔ قانونی ادارے نے کہا ہے کہ اس نے عالمی دائرہ کار کے اصول کے تحت لندن پولیس میں درخواست دائر کی ہے جو مختلف ملکوں کو ایسے افراد کو سزا دینے کا اختیار دیتا ہے جو جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف تشدد کرنے کے مرتکب ثابت ہوتے ہیں۔

سٹوکس وائیٹ فرم کے سربراہ ہاکن کاموز نے امید ظاہر کی ہے کہ رپورٹ پڑھ کر برطانوی پولیس شواہد کی بنیاد پر تحقیقات شروع کرے گی اور مجرموں کو سزا دلانے میں لیت و لعل سے کام نہیں لے گی جب وہ برطانوی سرزمین پر اپنا قدم رکھیں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ پولیس میں زیر حراست پاکستانی شدت پسند ضیا مصطفی کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے جن کی کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 2021 میں ماورائے عدالت قتل کے بارے انکشاف ہوا تھا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھی کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کی تحقیقات کرانے کی اپیل کی تھی جہاں قانون افسپا کے تحت بھارتی افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں جس کی آڑ میں خطے میں تشدد اور ہراساں کرنے کی خبریں روزانہ موصول ہوتی ہیں۔

بھارتی حکومت نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا اور ہلاکتوں کی تعداد میں برابر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی کانفرنس اور برطانیہ کے قانونی ادارے نے اپنی رپورٹوں میں تشویش ظاہر کی ہے کہ پانچ اگست 2019 کے اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد کرفیو، انٹرنیٹ پر پابندی، میڈیا بلیک آوٹ اور پھر کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران کشمیر میں تشدد کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہواہے جس پر عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بلخصوص ان جمہوری ملکوں کو جو انسانی حقوق کے تحفظ کو اپنی بنیاد قرار دیتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ