یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔
نئی قومی سلامتی پالیسی میں یہ پیغام واضح طور پر دیا گیا ہے کہ ہماری قومی سلامتی ہماری معاشی ترقی کی مرہون منت ہے اور ہماری ساری توجہ ہمارے معاشی حالات بہتر بنانے اور معیشت کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہو گی۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی واضح ہے کہ معاشی ترقی کی اس دوڑ میں جو بھی رکاوٹیں آئیں گی یا تو ان کو ہٹا دیا جائے گا یا ان سے راستہ بدل کر معاشی ترقی کے اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ چونکہ ہماری معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں تو اس نئی پالیسی کے مطابق ان کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے متنازع معاملات کو ایک طرف رکھ کر معاشی ترقی کا سفر طے کیا جائے گا۔
اس پالیسی کے نقوش سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی ترقی کی اس دوڑ میں ہم اب کشمیریوں کو پہلی جیسی اخلاقی، سیاسی یا سفارتی مدد نہیں دے پا سکیں گے. اس لیے اب کشمیریوں کو اپنی حق خود ارادی کی جدوجہد خود ہی لڑنی ہے اور اسے جاری یا ختم کرنے کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرنا ہے۔ کشمیریوں کی لمبی جدوجہد اور بے بہا قربانیوں کو دیکھتے ہوئے یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کی وہ اپنی جنگ پاکستان کی مدد یا اس کے بغیر بھی جاری رکھیں گے۔
کشمیری اچھی طرح جانتے ہیں کہ حق خود ارادیت کی اس جدوجہد کو ترک کرنا آخر میں کشمیری تشخص کے خاتمے پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی نسل کشی کے بین الاقوامی ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ موجودہ بھارتی ظالمانہ اقدامات سے کشمیریوں کی نسل کشی کی ابتدا شروع ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ کے ایک ماہر نے امریکی کانگریس میں حال ہی میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نسل کشی کا عمل اور اس کے واضح نشانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ اسی ماہر کے مطابق بھارتی حکومت ایسے ہی اقدامات اپنی دوسری ریاست آسام میں بھی کر رہی ہے۔
کشمیریوں کو اپنی جدوجہد کے ان مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے جبکہ ان کا سب سے بڑا حمایتی اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے سے قاصر دکھائی دیتا ہے اور بھارت انہیں ان کی اکثریتی ریاست میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان کربناک حالات میں کشمیریوں کے لیے شاید دو راستے بچے ہیں۔ پہلا راستہ تو ان کی بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد میں تیزی لاتے ہوئے بھارت کی کشمیر پر قبضہ کرنے کی قیمت بڑھانا ہے جبکہ دوسرا راستہ اقوام عالم میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کرتے ہوئے قانونی اقدامات اٹھا کر بھارت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کرنا ہے۔
پہلے راستے کے لیے بیرون ملک کشمیریوں کو اور پاکستان میں موجود کشمیریوں کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزاحمت کی مالی اور قانونی مدد کے لیے ایک منظم مہم چلانے کی ضرورت ہو گی۔ مالی مدد سے نہ صرف متاثرہ کشمیری خاندانوں کی مدد کی جاسکے گی بلکہ حریت پسندوں کے ذہنوں سے اپنے خاندانوں کی معاشی کفالت کے بوجھ میں بھی کمی ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں موجود اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کو مزاحمتی تحریک کی مدد کے لیے جدید طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مزاحمت اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکے۔ اس سلسلے میں بیرون ملک اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کو مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے مزاحمت کو جدید مواصلاتی سازوسامان بشمول سیٹلائٹ فونز سے لیس کرنا ہو گا۔
مزاحمت کی انٹرنیٹ تک لگاتار رسائی انتہائی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف مزاحمت کے اپنے درمیان رابطے آسان ہو جائیں گے بلکہ عام کشمیریوں تک معلومات ارسال کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ کیوں کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں حق خود ارادیت کی مدد کو جائز قرار دیتی ہیں تو بیرون ملک اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری، بھارتی قابض فوجیوں سے مقابلہ کرنے کی مزاحمت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کا قانونی جواز رکھتے ہیں۔
بیرون ملک کشمیری ایک منظم مہم کے تحت مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ میں قانون سازوں کے ساتھ رابطوں میں اضافہ کریں اور انہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے بارے میں مسلسل معلومات مہیا کریں۔ اس سلسلے میں باقاعدگی سے ان ممالک میں پارلیمانوں کے سامنے مظاہروں کی بھی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کشمیریوں کو مغربی ممالک میں ان بھارتی رہنماؤں اور فوجی افسروں کے خلاف، جو کشمیریوں کی نسل کشی میں شامل ہیں، ان ممالک کے انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق عدالتوں اور حکومتی اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹانے چاہیے۔ یہ قانونی چارہ جوئی صرف اور صرف کشمیریوں کو کرنا چاہیے اور اس میں پاکستانیوں یا کسی پاکستانی حکومتی ادارے کی کسی قسم کی شرکت نہیں ہونی چاہیے۔
ہمارے کچھ ممتاز ریٹائرڈ سفارت کاروں کے خیال میں ایسے قانونی ایکشن کے لیے شاید برطانیہ اور جرمنی مناسب ممالک ہیں جو انسانی حقوق کے معاملات میں آفاقی دائرہ کار کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں حال ہی میں دو حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہیں۔ اسی مہینے لندن میں ایک وکیل نے بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کے خلاف کشمیر میں جاری مظالم پر لندن پولیس کو انہیں گرفتار کرنے کی درخواست دی ہے۔ یہ درخواست ایک کشمیری خاندان کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس کے ایک فرد ایسے شخص کو ماورائے عدالت تشدد اور قتل کا نشانہ بنایا گیا جو انسانی حقوق کا علمبردار تھا۔
اس درخواست میں تفصیل سے دستاویزات کے ساتھ فوجی افسروں کی تشدد اور ہلاکت میں ملوث ہونے کے ثبوت دیے گئے ہیں اور اس ہلاکت کو جنگی جرائم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر اس درخواست کے نتیجے میں برطانوی پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا تو یہ بھارتی حکومت کے لیے کافی بین الاقوامی مشکلات پیدا کر سکتی ہیں اور اس طرح کی تحقیقات دوسرے ممالک میں بھی شروع ہو سکتی ہیں۔
دوسری پیش رفت میں جرمنی میں شامی خفیہ پولیس کے ایک افسر کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں سزا سنائی گئی جن کا دس سال پہلے ارتکاب کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نے جرمن عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس قسم کے فیصلے ان ممالک اور ان کے رہنماؤں کے لیے ایک انتباہ ثابت ہوں گے کہ اگر وہ اپنے ممالک میں انسانیت کے خلاف ان جرائم کے باوجود اگر محفوظ ہیں تو انہیں بیرون ملک ان جرائم کی سزا بھی مل سکتی ہے۔
اگر بےشمار کشمیری مکمل قانونی تیاری اور دستاویزات کے ساتھ اسی طرح کے قانونی اقدامات ان ممالک میں کریں تو یہ بھارت کی کشمیر میں قبضہ کی قیمت کو بڑھا سکتے ہیں اور بھارتی حکومت کو اپنے ظالمانہ اقدامات جاری رکھنے سے روکنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
کسی بھارتی رہنما یا فوجی افسر کے خلاف بین الاقوامی استغاثہ شروع کرنا کافی مشکل ہو گا مگر صرف وارنٹ گرفتاری جاری ہونا بھی بھارت کے لیے کافی بڑی بین الاقوامی شرمندگی اور رسوائی کا سبب بنے گا اور کشمیریوں کی اخلاقی فتح ثابت ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔