شہریوں کی ہلاکت: بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سینکڑوں گرفتاریاں

بھارت میں انسداد دہشت گردی کے خلاف متحرک نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سری نگر میں اتوار کو سکولوں کے 40 اساتذہ کو طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ بھی کی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکول پرنسپل سوپندر کور کی ہلاکت کے بعد ان کی ارتھی جلائے جانے کے دوران مختلف شہریوں کی موجودگی، سوپندر کور کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے دوران پولیس نے آج سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

 اگست 2019 میں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے براہ راست مرکز کی حکمرانی میں لانے کے بعد سے مطابق مسلم اکثریتی علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

گذشتہ ہفتے چھ دن میں سات شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے کشمیر اور پورے بھارت میں اشتعال پھیل گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ گولی مارے جانے سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد پورے علاقے سے تقریباً 500 مکینوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ قاتلوں کو تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

دوسری جانب نئی دہلی نے تحقیقات کے لیے انسداد دہشت گردی ٹاسک فورس کے ایک بڑے افسر کو کشمیر بھیج دیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسداد دہشت گردی کے خلاف متحرک نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سری نگر میں اتوار کو سکولوں کے 40 اساتذہ کو طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کی ہے۔

 حکام کے مطابق اس سال اب تک 29 شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔ ہلاک کیے جانے والوں میں سے 20 مسلمان تھے۔

تازہ ترین واقعات میں ہلاک کیے جانے والوں میں سے دو سکھ اور ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے اساتذہ تھے جنہیں مسلح افراد نے جمعرات کو سری نگر میں سرکاری سکول میں گولی ماری۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جمعرات کو ہی سکیورٹی فورسز نے ناکے پر نہ رکنے والے شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ تین دن پہلے 90 منٹ کے دوران تین مختلف واقعات میں تین شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہ ہلاکتیں ہوئیں

عسکریت پسندوں کے ایک نسبتاً نئے گروپ’مزاحمتی محاذ‘نے تازہ ترین ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا وہ’کرائے کی قابض فورسز اور کٹھ پتلیوں‘کے لیے کام کر رہے تھے۔

عسکریت پسندوں کے انگریزی زبان میں بیانات کو کئی وٹس ایپ گروپس میں پوسٹ کیا گیا تاہم ان کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔

تازہ ہلاکتوں نے کشمیر کی اقلیتوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ فرار ہو رہے ہیں۔

ہفتے کو ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا تھا کہ مبینہ حملہ آوروں اور بھارتی سکیورٹی فورسز جن پر ہراسانی، تشدد اور لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کے الزامات ہیں، کا ان کے اقدامات پر محاسبہ کیا جائے۔

ہیومن رائٹس واچ جنوبی ایشا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کشمیر ختم نہ ہونے والے تشدد کا شکار ہیں۔ ان پر عسکریت پسند حملے کرتے ہیں اور سرکاری حکام اور سکیورٹی فورسز انہیں بد سلوکی کا نشانہ بناتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا