کشمیر کا پاکستانی سید علی گیلانی

گیلانی صاحب مرحوم جب جھوم کر کہتے کہ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے، تو ہم یہاں جھوم جاتے، گیلانی صاحب آزادی کی دعا کرتے تو ہم بھی آمین کہتے۔

سید علی گیلانی اپنے آزادی کے نعروں کی گھن گرج اور جاندار بیانیے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک عظیم حریت لیڈر کے طور پر جانے گئے (اے ایف پی)

کشمیر کے پاکستانی، سید علی گیلانی،

عظیم حریت لیڈر کی عظیم کہانی...

سید علی گیلانی کشمیر کا وہ پاکستانی ہے جسے مجاہدِ لاثانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ہاں کشمیر کا پاکستانی، وہ عظیم حریت لیڈر جس نے بندوقوں کی نوک پر اور ڈنکے کی چوٹ پر ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ کا نعرہ اپنی زندگی کا استعارہ بنایا اور ایک عظیم مجاہد کی حیثیت سے اپنی جان مال سب کچھ کشمیر پر نچھاور کردیا اور ذرا برابر تردد نہ کیا۔

سید علی گیلانی، ہاں وہ کشمیر میں پاکستان کی آواز تھے، جس نے اپنی زندگی کے آخری 12 سال بدترین علالت کی حالت میں سفاک دُشمن کی اسیری میں گزار دیے۔

انہوں نے آخری چند ماہ سخت علالت میں گزارے، ایسے وقت میں جب انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت تھی بھارتی سرکار نے انہیں جبراً نظر بند کیے رکھا۔

اسی لیے مرحوم گیلانی صاحب کی وفات کو بھی قتل قرار اور اس کا ذمہ دار بھارتی سرکار کو قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ جان بوجھ کر انہیں طبی سہولیات سے دور رکھا گیا۔

سید علی گیلانی مرحوم ہی کی بدولت آج ایسے وقت میں جب بھارت کا زیر انتظام جموں و کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے جذبہ حریت اور فکرِ حریت پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔

اس کا اندازہ بھارت کے اس خوف سے بھی لگایا جا سکتا ہے جب سید علی گیلانی دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ بھارت جو اُن کی حیات کے دوران پریشان تھا آج ان کی موت سے بھی گھبرا گیا۔

مرحوم کا جنازہ شہدا کے قبرستان تک نہ لے جانے دیا، بندوقیں تان لی گئیں، کرفیو لگا دیا گیا، شاید حریت کا دشمن جان گیا تھا کہ یہ جنازہ کشمیر پر قبضے کی طویل تاریخ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔

مرحوم گیلانی صاحب نے شمع ہی ایسی روشن کر ڈالی ہے کہ کشمیر کا ہر نوجوان جذبہِ حریت سے سرشار ہے اور غلامی کا طوق قبول کرنے کو تیار ہیں۔

اور یہ نوجوان بھلا غلامی کا طوق کیوں کر زیبِ تن کرلیں جن کا روحانی قائد سید علی گیلانی جیسا عظیم لیڈر ہو۔

گیلانی صاحب مرحوم ان عظیم حریت رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے بھارت کے ہر جبر پر صبر تو کیا لیکن اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے اور نہ سرنڈر کیا۔

کشمیر کی تاریخ کا ہر ورق اُلٹا کر دیکھ لیں سید علی گیلانی ہر صفِ اول میں نظر آئیں گے۔

مرحوم گیلانی صاحب نے 1987 میں حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی اور اہلِ کشمیر کی نمائندگی کا حق ادا کیا، کشمیر کو دوسرا پاکستان گردانا اور تاعمر اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے۔

سید علی گیلانی، ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ نعرے کے بانی، بھارتی ظلم و بربریت کے شکار کشمیریوں کی توانا آواز تھے۔

وہ اپنے آزادی کے نعروں کی گھن گرج اور جاندار بیانیے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک عظیم حریت لیڈر کے طور پر جانے گئے۔

بھارت کی ہر سرکار نے تمام حربے استعمال کیے کہ کسی طرح اس توانا آواز کو دبا دیا جائے اور اس کے لیے جھوٹے مقدمے الزامات، کبھی گرفتاری تو کبھی نظربندی، لیکن کوئی دھونس کوئی دھمکی کوئی ترغیب انہیں اپنے ارادوں سے پیچھے نہ ہٹا سکی۔

حالیہ تاریخ کی بات کرلی جائے تو 2019 میں جب بھارت نے کشمیریوں کے حق پر بڑا ڈاکہ ڈالا اور اس کی خود مختار حیثیت کو متنازع قانون سازی کے ذریعے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو سید علی گیلانی نے بھارت کے اس ظالمانہ فیصلے اور کالے قانون کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی اور ایک بار پھر کشمیریوں کے جذبات کے ترجمان بنے۔

اِسی ترجمانی کی سزا میں انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور پھر طویل نظر بندی کی بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا۔

لیکن اس سے پہلے کہ اُن کی آواز کو دبا دیا جاتا اس سے قبل ہی مرحوم گیلانی صاحب نے بھارتی سرکار کے مذموم ہتھکنڈوں کے توڑ کا گُر اپنے کشمیر کے نوجوانوں کو سکھا دیا۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیر کے حالات بھارت کے قابو میں نہیں کیونکہ کشمیری اُن سنہری اصولوں قائدوں پر کاربند ہیں جس کی داغ بیل وہ ڈال گئے۔

سید علی گیلانی مرحوم جان کی بازی تو ہار گئے لیکن جاتے جاتے وہ سبق سکھا گئے کہ آنے والی نسلیں تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک وہ غاصب دشمن کی زنجیروں کو توڑ کر اس کے غرور کو خاک میں نہ ملا دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے عظیم کارناموں اور تحریکِ آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو ایک تحریر میں قید کرنا اور محض چند الفاظ میں بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

اِس ادنیٰ لکھاری کا تعلق بھی اُسی دھرتی سے ہے جس کی روح تو کشمیر ہے لیکن دل پاکستان میں دھڑکتا ہے۔

سرینگر پر جب بھی کوئی قہر ٹوٹتا ہے تہ یہ آنکھ بھی آشکبار ہوتی ہے اور بار بار ہوتی ہے۔

جب گیلانی صاحب مرحوم جھوم کر کہتے تھے کہ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے، تو یہاں ہم بھی جھوم جاتے، گیلانی صاحب آزادی کی دعا کرتے تو ہم بھی آمین کہتے۔

ان کے جانے کا غم کبھی کم تو نہ ہوگا لیکن اُن سے وعدہ ہے کہ جب تک سانس چلتی رہے گی کشمیر کے ساتھ روح کا یہ رشتہ قائم و دائم رہے گا۔

خدا تعالیٰ مرحوم سید علی گیلانی صاحب کے درجات کو بلند کرے اور انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ