کشمیر میں باغات کم، چھاؤنیاں زیادہ

کشمیری کہتے ہیں کہ چند ماہ سے وادی کے دلکش مقام پر اکا دُکا مقامی لوگ نظر آتے ہیں لیکن بھارت کے بیشتر وزرا، سیکریٹری اور دوسرے افسر ہر طرف دیکھے جاسکتے ہیں جن کی خدمت پر مقامی انتظامیہ اور پولیس میں غیر کشمیری ملازمین کو پہلے ہی تعینات کیا گیا ہے۔

چند بھارتی سکیورٹی اہلکار جموں و کشمیر ریاست کے لیہہ کے شانتی ستوپا سے پہاڑوں کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے (اے ایف پی فائل)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

یہ روایت صدیوں سے قائم ہے کہ برصغیر کے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدید لہر سے بچنے کی خاطر کشمیر سیاحوں کی عارضی پناہ گاہ بن جاتی تھی۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھارت میں مقیم مختلف ملکوں کے سفیر، بھارتی رہنما اور سرکاری افسر آج کل جموں و کشمیر کے خوبصورت پہاڑیوں کی سیر کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کو ملال ہے کہ یہ رہنما سکیورٹی کے سخت پہروں میں رہ کر نہ تو صحت افزا مقامات کا بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں اور نہ مقامی سیاحت کی صنعت کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان کی رہائش اور کھان پان کا انتظام سکیورٹی کے اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ سیاحت سے وابستہ مقامی اشخاص کو قریب جانے یا خیریت پوچھنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔

حقیقت میں یہ روایت مغلیہ دور سے چلی آ رہی ہے کہ موسم گرما میں کشمیر اکثر بادشاہوں یا مہاراجوں کا مسکن بنتا تھا۔ اس کو قائم رکھتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجوں نے کشمیر کو گرمائی اور جموں کو سرمائی دارالحکومت قرار دے کر دفاتر کو منتقل کرنے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسے ’دربار موو‘ سے جانا جاتا تھا۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے دفتروں کی منتقلی کو ختم کر کے جموں کے عوام کو مشکلات میں ڈالا جن کی روزی روٹی دربار موو کی بدولت لاکھوں ملازمین کی جموں آمد سے چلا کرتی تھی۔

مغل بادشاہوں یا ان کے بعد راجے مہاراجوں نے اپنے زمانے میں باغات اور محل قائم کر کے خود بھی لطف اٹھایا اور عوام کی تفریح کے لیے بھی خوبصورت وراثت چھوڑ دی تھی لیکن گذشتہ سو سال سے باغات یا محل کی بجائے صرف فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر دیکھی جا رہی ہے جو اب بھارت کے رہنماؤں کے عارضی مسکن بنتے جا رہے ہیں یا ان کے سائے تلے کافی لوگ مستقل سکونت اختیار کرنے کے منصوبے لے کر آتے ہیں۔

اکثر کشمیری کہتے ہیں کہ چند ماہ سے وادی کے دلکش مقام پر اکا دُکا مقامی لوگ نظر آتے ہیں لیکن بھارت کے بیشتر وزرا، سیکریٹری اور دوسرے افسر ہر طرف دیکھے جاسکتے ہیں جن کی خدمت پر مقامی انتظامیہ اور پولیس میں غیر کشمیری ملازمین کو پہلے ہی تعینات کیا گیا ہے۔

پہلگام، گلمرگ، سونہمرگ اور دودھ پتھری کی خوبصورتی دیکھ کر بظاہر ہر کسی کا دل دھڑک اٹھتا ہے لیکن سکیورٹی کے پہروں میں اس خوبصورتی کا لطف اٹھانا دودھ میں لیموں ملا کر پینے کے برابر ہے۔ اس کا احساس شاید بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو بھی ہوا ہے جنہوں نے حال ہی میں پڑوس میں بدلتی صورت حال کے پیش نظر کہا تھا کہ کشمیر کو سنبھالنے میں ابھی مزید وقت درکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ محض ایک اتفاق ہے کہ جس روز یعنی 15 اگست کو جموں و کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا سو فٹ اونچا ترنگا کشمیر کے ہاری پربت یا کوہ ماران پہاڑی پر لہرا رہے تھے، جہاں ماضی میں کشمیر پر قائم درانی سلطنت کے افغان گورنر عطا محمد خان نے ایک قلعہ تعمیر کیا تھا، اس وقت کابل کے صدارتی محل پر طالبان کا پرچم بھی لہرایا جا رہا تھا۔

اس اتفاق پر کشمیر کے اطراف و اکناف میں محض سرگوشیاں ہو رہی تھیں کیونکہ بھارت کی حکومت نے بات کرنے سے منع کیا ہے۔

مسلم آبادی والے خطے جموں و کشمیر میں دو سال سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، جامع مسجد سمیت بیشتر عبادت گاہیں مقفل ہیں، محرم کے جلوسوں پر پابندی ہے، کرونا کا جواز دے کر عوام کی نقل و حمل پر قدغن ہے مگر 15 اگست کو یوم جمہوریہ منانے کے لیے بچوں کر گھروں سے نکال کر سٹیڈیم لایا جاتا ہے، ہندو تہوار جنم اشٹمی پر ہندووں کو باہر سے لا کر حبہ کدل میں جھانکی نکالی جاتی ہے اور سفری پابندیوں کے باوجود لاکھوں سیاحوں کو وادی لا کر مقامی آبادی کو بدستور محصور رکھا جاتا ہے۔

مقامی آبادی کو قید و بند رکھ کر بھارت کے وزرا سے لے کر بی جے پی کے ہزاروں کارکن اور 10 لاکھ فوج اگر اس خطے کو بزور طاقت زیر کرنے کے ایجنڈے پر کھلے عام کام نہیں کر رہے ہیں تو اور کیا کر رہے ہیں؟ بھارت کی ایک ارب آبادی سے اس کا جواب پوچھنا چاہیے جو افغانستان میں طالبان کے واپس آنے پر ماتم کر رہی ہے اور پھر ستم ظریفی یہ بھی کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کا واسطہ بھی دے رہی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ