طالبان اور کشمیر کا تعلق

ظاہر ہے کہ پڑوس میں آئے روز جو سیاسی ردو بدل ہو رہے ہیں جن سے جموں و کشمیر متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا مگر یہ کہنا شاید صحیح نہیں ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد کو بندوق کے بل پر جاری رکھنے کے حامی ہیں یا کسی ملک کی امداد پر تکیہ کرنا چاہتے ہیں۔

کشمیری خواتین 21 ستمبر 2001 کو ایک امریکہ مخالف ریلی کے دوران سری نگر میں کشمیر کی مرکزی مسجد کے قریب طالبان کے حق میں نعرے لگا رہی ہیں(اے ایف پی/توصیف مصطفٰی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

کسے یقین تھا کہ عالمی میڈیا کی چینلوں پر شلوار قمیض میں ملبوس، پیروں میں پھٹے چپل پہنے اور ہاتھوں میں بندوق تھامے اس لشکر کو افغانستان کے صدارتی محل میں بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوتے براہ راست دکھایا جائے گا جس کے بارے میں چند برس پہلے تک بات کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔

یہ کہانی چار کروڑ آبادی والے اس ملک کی ہے جہاں امریکہ نے 20 برس کی جنگی مہم پر دو ٹرلین ڈالر خرچ کر دیئے، ڈھائی ہزار فوجی اور چار ہزار امریکی شہری کنٹریکٹرز گنوا دیئے، تین لاکھ افراد کو فوجی تربیت دے کر مسلح کر دیا اور چند روز پہلے تک اسے مغربی جمہوریہ بنانے کے اپنے خواب کو پال رہا تھا۔

اشرف غنی کا صدارتی محل، جم اور بچوں کی تفریح کاروں کو دیکھنے کا شرف اکثر کو پہلی بار حاصل ہوا مگر ایک کمی شدت سے محسوس کی گئی کہ وہاں نہ اشرف غنی نظر آئے، نہ جمہوریت کے درشن ہوئے اور نہ امریکی اسلحے سے لیس افغان فوجی، جو خبروں کے مطابق کابل پر طالبان کی دستک ہوتے ہی فرار ہوگئے تھے حالانکہ محل کی زرق و برق دیکھ کر وہاں سے فرار ہونا مشکل ترین فیصلہ رہا ہوگا۔

دانشور اکثر کہتے ہیں کہ ’کسی علاقے کی زمین دیکھ کر ہی بیج بونے کی ضرورت ہوتی ہے، ہر علاقے میں ہر کوئی بیج نہیں اُگتا۔ مصنوعی گھاس اُگانے کے تجربوں سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوئی ہے۔‘

افغانستان میں 80 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، دہائیوں سے علاقائی سرداروں کے نظام کے نیچے زندگی بسر کرتے آ رہی ہے، تعلیم کا شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے، قلیل اور سادہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں، صوم وصلوات کے پابند ہیں جس کی پاداش میں بیشتر ملکوں نے انہیں انتہا پسندی کا سرٹیفیکٹ بھی دے دیا ہے۔

اس کا مقابلہ پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل کابل شہر سے تو نہیں کیا جاسکتا جہاں آبادی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی، مغربی سیاست، میڈیا یا تعلیم سے کافی عرصے پہلے سے متعارف ہوا ہے۔ اس کا سہرا کسی بیرونی طاقت کے سر نہیں بلکہ روس کی فوجی مداخلت سے پہلے بھی یہ شہر ہر لحاظ سے دنیا کے دیگر شہروں کی طرح جدیدیت کے تقاضوں کے مطابق رواں دواں تھا۔

مجھے یاد ہے جب ستر کی دہائی میں افغانستان کے بیشتر طلبا کشمیر کے تعلیمی اداروں میں اعلی ڈگریاں حاصل کرنے آتے تھے اور کشمیری کابل یونیورسٹی کا رخ کیا کرتے تھے۔

افغانستان اور کشمیر کے بیچ، سیاسی، ثقافتی اور لسانیاتی ہم آہنگی صدیوں پرانی قائم ہے۔

اٹھارویں صدی کے وسط میں عبداللہ خان اسحاق نے پہلی بار کشمیر میں افغان حکومت قائم کی تھی جس کے بعد افغان تقریباً 66 سال تک کشمیر کے حکمران رہے ہیں۔ اس دور کی یادیں کشمیر کے گوٹلی باغ علاقے میں پشتو بولنے والوں سے آج بھی تازہ ہو جاتی ہیں جو قندھار کی مانند ہے جہاں بعض افراد کو نوے کی دہائی میں طالبان سے مشابہت کے شک میں سختیاں بھی جھیلنی پڑی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے دوسری بار اقتدار سنبھالنے پر اگرچہ پوری دنیانے پہلے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے وہیں بھارت نے تشویش کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پڑنے والے اثرات کے جس طرح کے خدشات جتائے ہیں اس سے خود اس کی اپنی پالیسیاں عالمی میڈیا میں سوالیہ نشان بننے لگی ہیں۔

بقول ایک بھارتی سینیئر صحافی ’ہندوتوا حکومت کی خارجہ پالیسی نے بھارت کے امیج کو ہر طرف سے زک پہنچایا ہے، تنہا کر دیا ہے، اندرون ملک ہندوتوا کی وجہ سے کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے اب بغل میں طالبان کے آنے سے لیڈرشپ حواس باختہ نظر آ رہی ہے۔ مگر انہیں کون سمجھائے کہ جو انہوں نے خود اپنے ہی گھر کے اندر مذہبی آگ بھڑکائی ہے اس آگ کو بجھانے کی بجائے طالبان کو کیوں انتہا پسند قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان سے ہندووں اور سکھوں کو واپس بلانے کے اعلان سے اس حکومت نے دنیا کو دکھا دیا کہ یہ خود کتنی انتہا پسند ہے۔‘

بھارتی میڈیا کے مطابق کشمیر کے بارے میں پھر وہی تشویش پیدا ہوئی ہے جو سن 1996 میں ظاہر کی جا رہی تھی جب کشمیر میں مسلح تحریک اپنے عروج پر پہنچی تھی اور جس کو دبانے کے لیے حکومت نے کہا تھا کہ ان کے سیاسی حقوق دینے کے لیے بھارت آسمان کی حدوں تک جاسکتا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ طالبان کشمیر کی مسلح تحریک میں پھر شامل ہوسکتے ہیں حالانکہ نوئے کی دہائی میں کسی افغان جنگجو کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے اور نہ اس بات کے شواہد ہیں کہ کشمیریوں نے کبھی طالبان سے مدد مانگی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوب ایشیائی سیاسیات کے استاد جارج گراہم کہتے ہیں کہ ’اگر امریکہ، برطانیہ جیسی سپر طاقتوں نے طالبان کے ساتھ جن کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا گیا تھا قطر معاہدہ کیا جس نے افغان علاقوں پر لشکر کشی کرنے کا جواز پیدا کیا تو کشمیریوں کو اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ اگر روک سکتا تھا تو بھارت کا طریقہ کار، جس کو مودی حکومت اور آر ایس ایس نے ہمیشہ کے لیے زمین بُرد کر دیا ہے۔

ہندوتوا نے ایک کروڑ سے زائد آبادی میں ہندوستان کے لیے نفرت کے سوا کچھ پنپنے نہیں دیا۔ ایسی صورت میں بھارت کو ضرور تشویش ہونی چاہیے کیونکہ چین، روس اور پاکستان اس ملک کو آرام سے بیٹھنے کیسے دیں گے جس نے افغانستان میں بیٹھ کر جاسوسی کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا۔‘

اکثر بھارتی سمجھتے ہیں کہ طالبان کے آنے پر کشمیری خوش ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ بیشتر کشمیریوں نے سن 96 کے طالبان کو پسند نہیں کیا تھا کیونکہ کشمیر کی سرزمین میں کٹر پرستی کا بیج کبھی درخت نہیں بن سکا مگر چونکہ ہر کشمیری ہندو کٹر پرستی کی زد میں رہا ہے اور روز روز کی ذہنی اور جسمانی اذیت سے اس قدر جھوجھ رہا ہے کہ ان کے لیے ہندوتوا کی ہر شکست جیت بن جاتی ہے۔

بر بر شاہ کے راجہ علیم کہتے ہیں کہ ’ہندوتوا والوں کو ہندو دہشت گردوں سے پکارا جانا چاہیے، ان کے گناہ دہشت گردوں سے سو گنا زیادہ ہیں۔‘

ظاہر ہے کہ پڑوس میں آئے روز جو سیاسی ردو بدل ہو رہے ہیں جن سے جموں و کشمیر متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا مگر یہ کہنا شاید صحیح نہیں ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد کو بندوق کے بل پر جاری رکھنے کے حامی ہیں یا کسی ملک کی امداد پر تکیہ کرنا چاہتے ہیں۔

کشمیری اپنے سیاسی اور معاشی حقوق کی حصول کی پرامن جدوجہد کے حامی ہیں ۔

وہ محض ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ طالبان کا نیا چہرہ افغانستان اور پڑوس کے لیے امن کی علامت بن جائے اور وہ سارے خدشات جھوٹے ثابت ہوں جو عوام کی تشویش میں بےچینی کا سبب بنتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ