آدھا سچ، 70 سال کے چکر

ہم دائروں میں اس لیے گھوم رہے ہیں کہ ہم آدھا سچ بولتے ہیں اور وہ بھی ایسا جس سے ہماری ذات کو تو فائدہ ہو مگر معاشرہ ہمیشہ نقصان میں رہے۔

مزدور سے لے کر صدر تک سب اپنے اپنے حصے کا آدھا سچ بول رہے ہیں۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو پچھلے 70 سال سے دائروں میں گھوم رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ نہ ہم آگے جا رہے ہیں اور نہ ہی پیچھے۔ حرکت میں بھی ہیں اور نہیں بھی۔ پچھلے دو دن میں جو کچھ ہوا اس سے ایسا لگتا ہے کہ دائرے کا ایک چکر مکمل ہوا اور اب اگلے چکر کی تیاری ہے۔

پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کے ہاں این آر او لیا تو تھا مگر عدلیہ نے مسترد کر دیا۔ تو بھائی ایک سیاستدان کے طور پر آپ کا اس میں کیا کمال تھا۔ آپ نے تو پورا کام کر دیا تھا مگر چال چل نہ سکی۔ مریم نواز شریف کہتی ہیں ’موجودہ لاڈلا‘ جلد لندن چلا جائے گا تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ ابھی پچھلے دنوں سابق لاڈلے نے درخواست دی تھی کہ مجھے لندن جانے کی اجازت دی جائے۔ اور ڈیل اور ڈھیل کی تلاش میں آپ کے چچا ابھی کچھ دن پہلے لوٹے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پریس کانفرنس میں شیخ رشید بننے اور ایک نئے فتنے کے بیج بونے کی کوشش کی۔ عمران خان کے ایک بہت ہی لاڈلے وزیر نے اعلان کیا ہے کہ اگر پانچ ہزار لوگوں کو چوک میں لٹکا دیں تو یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ چونکہ وہ موجودہ لاڈلے ہیں اس لیے انہیں اعتماد ہے کہ ان کے بینک ڈیفالٹ کے قصے اور بیرونی ممالک اربوں روپے کی مبینہ جائدادیں کسی کو نظر نہیں آئیں گی۔ انہیں یقین ہے وہ ان پانچ ہزار کی فہرست میں شامل نہیں ہوں گے۔

عمران خان کی انتخابی مہم بظاہر جھوٹ اور فریب کا پلندہ تھی۔ جس سفیر علی صدیقی کو وہ کرپٹ اور ناتجربہ کار قرار دے رہے تھے اسی کو اپنی حکومت میں سفیر لگا دیا۔ انقلاب فرانس سے پہلے تمام عہدے برائے فروخت تھے اور عمرانی حکومت کا بھی بظاہر کچھ یہی حال ہے۔ ان تمام واقعات کے بعد کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ان تمام حضرات نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے اور اب یہ اس قوم کے مسائل حل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم دائروں میں اس لیے گھوم رہے ہیں کہ ہم آدھا سچ بولتے ہیں اور وہ بھی ایسا جس سے ہماری ذات کو تو فائدہ ہو مگر معاشرہ ہمیشہ نقصان میں رہے۔ مگر یہ حال صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ تمام معاشرہ اس میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ابھی کل ہی کالے کوٹ میں انتہائی پڑھے لکھے وکیل ایک جج صاحب کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔ میں بھی ان جج صاحب کے خلاف درخواست سے پریشان ہوں۔ البتہ یہ وکیل انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ برسوں تک مقدمات کی پیروی کرتے ہیں مگر کبھی اتنی شدومد سے اس تاخیر کے خلاف ہڑتال نہیں کرتے کیونکہ اگر مقدمے جلد حل ہونے لگے تو فیسوں کا کیا ہوگا۔ یہی ان کا آدھا سچ ہے۔

کاروباری لوگ اقتصادی صورتحال سے بہت پریشان ہیں مگر وہ حکومت سے یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم ٹیکس دیں گے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور مراعات دیں۔ یعنی اقتصادیات صحیح کرنے کی ذمہ داری ان کی نہیں ہے بلکہ یہ بوجھ کسی اور کو اٹھانا چاہیے۔

فوج کہتی ہے کہ ان کی عزت کی جائے اور ان کے ادارے پر کوئی کیچڑ نہ اچھالا جائے۔ مگر جب سیاست کی بات آتی ہے تو اس میں حصہ لینا ضروری ہے۔ اسی لیے پی ٹی ایم کے بعد اب کالے کوٹ والوں نے بھی اسی طرز کے نعرے لگائے ہیں۔ اور وہ جو پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بات کر رہا ہے وہ الیکشن سے پہلے کھلے عام یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیت کا وعدہ ہو چکا ہے اور نتیجہ وہی نکلا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مزدور سے لے کر صدر تک سب اپنے اپنے حصے کا آدھا سچ بول رہے ہیں۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کے اس صورتحال سے نکلنے کا حل کیا ہے۔ حل یہ ہے کہ موجودہ جمہوریہ جس کی بنیاد آدھے سچ پر ہے اسے اب ہمیں مسترد کر کے ایک نئی جمہوریہ کی بنیاد رکھنا چاہیے۔ اس کی پہلی اینٹ یا شرط یہ ہے کہ سب یہ عہد کریں کے پورا سچ بولیں گے اور اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری اور دیانت داری سے کریں گے۔ اللہ نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ وہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ ہو۔

---------------------------------

یہ رائے مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر