افغان اثاثوں کی تقسیم کا حکم امریکہ کی ’اخلاقی گراوٹ‘: طالبان

امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق افغان حکومت کے ضبط شدہ سات ارب ڈالر کے اثاثوں کو نائن الیون حملوں کے متاثرین اور افغان جنگ کے بعد بطور امداد تقسیم کرنے کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق افغان حکومت کے ضبط شدہ سات ارب ڈالر کے اثاثوں کو نائن الیون حملوں کے متاثرین اور افغان جنگ کے بعد بطور امداد تقسیم کرنے کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں، جسے افغان طالبان نے ’چوری‘ اور ’اخلاقی گراوٹ‘ قرار دیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن کی جانب سے جمعے کو دستخط کیے گئے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے افغان اثاثوں کو باضابطہ طور پر بلاک کردیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن منجمد فنڈز میں سے 3.5 ارب ڈالر افغان عوام کے فائدے اور افغانستان کے مستقبل کے لیے انسانی امداد کے لیے قائم ٹرسٹ فنڈ میں جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایک سینئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ ٹرسٹ فنڈ طالبان حکام کو بائے پاس کرتے ہوئے اس امداد کا انتظام کرے گا۔

ایک سینیئر  عہدیدار نے  اے ایف پی کو بتایا کہ نئے منصوبے کے علاوہ بھی امریکہ افغانستان میں انسانی امداد کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ گذشتہ سال اگست کے وسط سے اب تک 51 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا عطیہ دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ رقم غیر سرکاری تنظیموں میں تقسیم کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ پالیسی فیلو اور افغانستان میں سابق قائم مقام امریکی مالیاتی اتاشی مائیکل پیسا نے امریکہ کی جانب سے افغان اثاثوں کو ضبط کرنے کو ’بے مثال‘ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’میں یقینی طور پر امریکہ کی طرف سے اس قسم کے اقدامات کی کسی نظیر سے واقف نہیں ہوں، لیکن طالبان کے لیے بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک دہشت گرد گروہ نے کسی ریاست پر قبضہ کر لیا ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بائیڈن انتظامیہ کی یہ کوشش سوئی میں دھاگا ڈالنے کے مترادف ہے۔ کچھ اور بھی چیزیں ہیں جو میرے خیال میں انہیں کرنی چاہییں۔ امداد کی رقم چار ارب ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے جو ان 50 کروڑ ڈالر کے علاوہ ہے، جو اگست کے بعد پہلے ہی افغانستان میں خرچ کی جا چکی ہے۔‘

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس حکم نامے کے تحت امریکی مالیاتی اداروں کو افغانستان میں ریلیف اور بنیادی ضروریات کے لیے 3.5 ارب ڈالر کے اثاثوں تک رسائی کو آسان بنانا ہوگا۔

ادھر خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس منصوبے میں فنڈز کا بقیہ نصف حصہ امریکہ میں رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو کہ دہشت گردی کے امریکی متاثرین کی طرف سے جاری قانونی چارہ جوئی سے مشروط ہے، جس میں 11 ستمبر 2001 کو ہائی جیکنگ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین بھی شامل ہیں۔

امریکی عہدیدار نے مزید بتایا کہ جن امریکی عدالتوں میں 11 ستمبر کے متاثرین نے طالبان کے خلاف دعوے دائر کیے، انہیں بھی متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے کارروائی کرنا ہوگی۔

امریکہ کی ’چوری‘ اور ’اخلاقی گراوٹ‘

دوسری جانب امریکہ کے اس اقدام سے افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے جنہوں نے افغان اثاثوں کے ضبط کیے جانے کو ’چوری‘ اور امریکہ کی ’اخلاقی گراوٹ‘قرار دیا۔

طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ٹوئٹر پر کہا: ’امریکہ کی طرف سے افغان عوام کی رقم کی چوری اور اسے ضبط کرنا کسی ملک اور قوم کی انسانی اور اخلاقی گراوٹ کی نچلی سطح کی نمائندگی کرتا ہے۔‘

نعیم نے مزید کہا کہ ’جنگ میں ناکامی اور فتح پوری تاریخ کا حصہ ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی اور شرمناک شکست وہ ہوتی ہے جب فوجی شکست میں اخلاقی شکست بھی شامل ہو جائے۔‘

طالبان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فنڈز جاری کرے اور انسانی تباہی سے بچنے میں مدد کرے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اگست کے وسط میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی فنڈنگ معطل کر دی گئی تھی اور بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں تھے۔

طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے طویل عرصے سے مشکلات کا شکار افغان معیشت مزید نیچے کی جانب گر رہی ہے۔

افغانستان کی سابقہ حکومت کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد عالمی برادری کی طرف سے آتا تھا۔ یہ رقم جو اب نہیں مل رہی، اس سے ہسپتالوں، سکولوں، فیکٹریوں اور سرکاری وزارتوں کی مالی امداد کی جاتی تھی۔

افغانستان کے پاس نو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے ہیں جن میں امریکہ میں سات ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے بھی شامل ہیں جبکہ باقی بڑی حد تک جرمنی، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ اور قطر میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا