امریکہ افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد دینے پر راضی ہے: طالبان

امریکی انخلا کے بعد طالبان اور امریکہ کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات کے اختتام پر افغان طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت ’اچھی رہی‘ جبکہ امریکہ نے اسے ’دو ٹوک اور پیشہ ورانہ‘ قرار دیا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم ملک کو انسانی بنیادوں پر امداد دینے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق طالبان کا بیان افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پہلی بار دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دو روزہ باضابطہ مذاکرات کے اختتام پر اتوار کو جاری ہوا۔

تاہم امریکی بیان زیادہ واضح نہیں تھا اور اس میں صرف یہی کہا گیا کہ دونوں فریقین کے درمیان ’افغان عوام کو براہ راست امریکی امداد پہنچانے‘ پر بات ہوئی۔

طالبان نے کہا کہ دوحہ میں ہونے والی بات چیت ’اچھی رہی‘ اور واشنگٹن نے امداد کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے مشروط نہ کرنے کا عندیہ دیا۔

امریکہ نے وضاحت کی مذاکرات کسی بھی طرح طالبان کو تسلیم کرنے کی پیشکش نہیں تھے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ مذاکرات  ’دو ٹوک اور پیشہ ورانہ‘ تھے اور امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ طالبان کو ان کے اعمال کی بنیاد پر پرکھا جائے گا، صرف الفاظ پر نہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’امریکی وفد نے سکیورٹی اور دہشت گردی کے خدشات اور امریکی شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور ہمارے افغان شراکت داروں کے لیے محفوظ گزرگاہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بشمول افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی بامعنی شرکت پر توجہ دی۔‘

طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تحریک کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے مذاکرات کے دوران امریکہ کو یقین دلایا کہ طالبان یہ یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ افغان سرزمین شدت پسندوں کی جانب سے دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔

تاہم ہفتے کو طالبان نے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائی میں واشنگٹن کے تعاون کو مسترد کر دیا تھا۔ داعش طالبان کی حریف ہے اور افغانستان میں اس کی مقامی شاخ انخلا کے بعد ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ واشنگٹن داعش کو افغانستان سے سب سے بڑا دہشت گرد خطرہ سمجھتا ہے۔

جب سہیل شاہین سے داعش سے نمٹنے کے لیے امریکی مدد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا: ’ہم آزادانہ طور پر داعش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

امریکی وفد نے ملک میں پیچھے رہ جانے والے امریکیوں اور دیگر غیر ملکیوں کے انخلا کے حوالے سے بھی طالبان سے بات چیت کرنا تھی۔ مذاکرات کے اختتام پر طالبان کے بیان میں کہا گیا کہ وہ ’غیر ملکی شہریوں کی اصولی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کریں گے۔‘

’موسم سرما سے قبل افغانوں کی امداد نہ ہونے کے بھیانک نتائج‘

دوسری جانب اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا ہے کہ اگر سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی مدد نہ کی گئی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابر بلوچ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ افغانستان میں انسانی بحران سنگین ہو چکا ہے۔  افغانستان کی موجودہ آبادی چار کروڑ ہے اور ان میں سے آدھے یعنی تقریباً دو کروڑ افراد کا گزر بسر  15 اگست کے واقعات سے پہلے بھی امداد پر تھا۔‘

 بقول بابر بلوچ: ’صرف 2021 میں تنازع کی وجہ سے بے گھر افراد کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مجموعی طور پر بے گھر افراد کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے پاس سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی امداد کے لیے بہت کم وقت ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ان کی جلد از جلد مدد نہ کی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں فکر ہے کہ افغانوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس کا اثر افغانستان میں مسائل اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کی صورت میں آئے گا اور اس کے اثرات افغانستان سے باہر بھی جائیں گے۔ صرف پاکستان اور ایران تک ہی نہیں جو کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں بلکہ دیگر ممالک تک بھی اثرات جائیں گے۔‘

کابل کے سرینا ہوٹل کے لیے سکیورٹی انتباہ جاری

افغانستان میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ نے کابل کے سرینا ہوٹل میں سکیورٹی کے خطرے کے بارے میں فوری انتباہ جاری کیا ہے۔ 

اتوار کو جاری کیے گئے انتباہ میں امریکی شہریوں کو سرینا ہوٹل سے دور رہنے کا کہا گیا ہے جبکہ ہوٹل میں قیام پذیر امریکی شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں۔

وسطی کابل میں واقع سرینا ہوٹل افغانستان کا پہلا فائیو سٹار ہوٹل ہے، جو حالیہ برسوں میں غیرملکی مہمانوں، سیاست دانوں اور بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں کی میزبانی کرتا آیا ہے۔ ماضی میں بھی اسے طالبان کی جانب سے بار بار نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس ہوٹل میں داخلے کے لیے انتہائی سخت سکیورٹی نظام نافذ ہے۔

طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے سکیورٹی صورت حال بتدریج خراب ہو رہی ہے اور جمعے کو قندوز کی سید آباد مسجد میں دھماکے میں 100 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے تھے۔

یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں گذشتہ دو دنوں سے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے افغانستان سے امریکی شہریوں کے محفوظ انخلا کے معاملے پر طالبان کے ساتھ ’پیشہ ورانہ‘ مذاکرات کیے ہیں۔

طالبان نے اس سے قبل اپریل 2013 میں کابل میں سرینہ ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’اس حملے میں ان غیرملکی مہمانوں کو نشانہ بنایا گیا جو نئے سال کا جشن منانے کے لیے افغانستان گئے تھے۔‘

طالبان نے دسمبر 2007 میں بھی اس ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ دو سال بعد ایک راکٹ ہوٹل کی دیوار سے ٹکرایا جس سے دو افراد زخمی ہوئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا