لاوارث بچوں کو پالنے کے لیے شادی سے انکار کرنے والی رضیہ

سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان کی 35 سالہ رضیہ سہتو کے پاس اس وقت 20 یتیم بچے ہیں، جن کی پرورش کے لیے وہ کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں اور اس کام میں ان کے بھائی بھی رکشہ چلا کر ان کی مدد کرتے ہیں۔

’اب میری پوری زندگی یہ بچے ہیں۔ میں شادی کرتی ہوں یا نہیں اس بارے میں کبھی سوچتی ہی نہیں ہوں۔ میرے لیے سب کچھ یہ بچے ہیں اور اس کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘

سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان کے پیر محلے کی رہائشی رضیہ سہتو گذشتہ 25 سال سے یتیم بچوں کو تین کمروں کے کچے گھر میں سنھبال رہی ہیں۔ انہوں نے ان بچوں کی دیکھ بھال کی خاطر شادی بھی نہیں کی۔

35 سالہ رضیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے پاس 20 یتیم بچے ہیں، جن کی پرورش وہ سلائی مشین کی کمائی اور بھائی کے رکشہ چلانے سے کر رہی ہے۔

رضیہ کے خواب بھی وہی تھے, جو کسی عام لڑکی کے ہوتے ہیں کہ تھوڑا پڑھ لکھ کر شادی کرکے اچھی زندگی بسر کرنی ہے، لیکن ان کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب وہ بارہویں کلاس میں پڑھ رہی تھیں اور انہیں ایک نومولود یتیم بچی ملی۔

وہ بتاتی ہیں: ’میں نے انٹرمیڈیٹ کرکے پڑھائی چھوڑ دی، میری منگنی ہوئی تھی اور شادی بھی ہونے والی تھی تو اس وقت میں میرے پاس ندا آئی، وہ دو دن کی تھی، میں نے ڈاکٹر کو ندا کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہ بچی پوری زندگی ٹھیک نہیں ہوسکے گی، کیونکہ اسے دماغی دورے پڑتے ہیں اور وہ بالکل معذور ہے۔ اس معصوم بچی نے میرا نظریہ بدل دیا اور میں نے ندا اور دیگر بچوں کے لیے شادی کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔‘

رضیہ کا کہنا تھا کہ یتیم بچوں کو پہلے ان کی والدہ سنبھال رہی تھیں، لیکن ان کے گزر جانے کے بعد انہوں نے یہ کام سنبھالا۔

انہوں نے بتایا: ’جن بچوں کو کوئی کچرے میں چھوڑ دیتا ہے یا کوئی ناجائز قرار دے کر انہیں پھینک دیتا ہے، ہمارے پاس وہی بچے ہیں، جن کا ہمارے علاہ کوئی بھی وارث نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق: ’تمام بچوں کو پالنے اور سنھبالنے کا کام میں ہی کرتی ہوں، بھائی رکشہ چلاتا ہے اور ایک دو بڑی بچیاں بھی ہیں جو میری مدد کرتی ہیں۔ میں کپڑوں کی سلائی کرتی ہوں، اس سے یہ سلسلہ چلتا ہے۔ حکومت، این جی او یا شہر میں کسی نے بھی میری مدد نہیں کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ سکول میں پڑھتی تھیں، تب ان کا خواب تھا کہ وہ ٹیچر بنیں گی اور اچھی زندگی گزاریں گی اور ان کی شادی ہو جائے گی۔

رضیہ نے کہا: ’ہر لڑکی کا زندگی میں اپنا اپنا خواب ہوتا ہے، لیکن میرا کوئی خواب نہیں ہے۔ نہ زندگی کا، نہ کچھ اور۔ میرے لیے یہ خواب، یہ خوشی، یہ روشنی یہ زندگی، پیار محبت سب کچھ میرے بچے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ کام ہمیشہ جاری رکھیں گی۔ ’یہ تو 20 بچے ہیں، اگر مجھے 40 بچے اور ملیں گے تو وہ بھی پالوں گی۔‘

رضیہ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان لوگوں تک ان کی آواز پہنچے، جہاں جہاں لوگ بچےچھوڑ دیتے ہیں۔ ’خاص طور پر معذور بچے یا جنہیں پیدا کرکے کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے، تو وہ ایسا نہ کریں۔ ہمارے پاس بچے چھوڑ جائیں۔ یہ میرا کام ہے کہ ایسے بچوں کو سنبھالوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان بچوں کے ساتھ یہاں ان کے پاس تین بیوہ خواتین بھی رہتی ہیں، جن کہ وہ اپنی ماں کی طرح خدمت کرتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی