کشمیری یتیموں کی فروخت

بچوں کی فروخت کا یہ نیا معاملہ بھی خود بخود ختم ہوجائے گا اور ایسا کرنے والے باہر سے زیادہ وہ مقامی لوگ ہوں گے جن کا نصب العین ہے کہ معاشرے کو عیبوں میں غرق کرکے، قدروں کو کھوکھلا کرکے اور انسانیت کو پستی میں گرا کے کشمیریت کا جنازہ اٹھانا ہے۔

سری نگر میں ایک بچی اپنی والدہ کے ساتھ   گائے کو چرانے لے جارہی ہے۔ خدشہ ہے کہ کشمیر میں بچوں کی فروخت کا یہ نیا معاملہ بھی  خود بخود ختم ہوجائے گا (تصویر: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


وہ زمانہ گیا جب مغل بادشاہ کشمیر کی دلکشی دیکھ کر کہتے تھے:

اگر فردوس بر روئے زمیں است

ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

یا علامہ اقبال نے کہا تھا

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

آج وہ کشمیر جنت بےنظیر ہے نہ آتشِ چنار کا شعلہ ہے۔ وہاں آج ہر طرف بدصورتی جھلک رہی ہے اور ضمیر کو مارا جا رہا ہے۔

جن وادیوں کو دیکھنے کے لیے لوگ ترستے تھے وہاں پہاڑوں کی برفیلی چٹانوں پر بارود، اسلحہ، بوفورس اور چناروں کے پتوں کی مانند انسانی لاشیں بکھری پڑی نظر آتی ہیں۔

اس پرتشدد طوفان کی زد میں ایک کروڑ سے زائد کی آبادی ہے۔

جو لوگ اس تشدد سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو انسانوں کی منڈیوں میں فروخت کیا جانے لگا ہے۔

چند دہائی قبل تک امیر ملکوں میں رواج تھا کہ غریب ملکوں کے بچے، بوڑھے اور جوان ہانک کر نیلامی میں فروخت کرنے کے لیے لائے جاتے تھے، جن سے بعد میں جبری مشقت کروائی جاتی تھی۔

ان غلاموں کی موجودہ نسل آج کل ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے بینر تلے دنیا کے امیر ملکوں میں اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اب کشمیر بھی ان خطوں میں تقریباً شامل ہوگیا ہے جہاں غیرسرکاری اداروں کے پرچم تلے انسان بیچنے کی منڈیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ اس کی شروعات بچوں کی فروخت سے ہوئی ہے۔

ایک دہائی قبل جب کشمیر میں جنسی سکینڈل کا ایک بڑا معاملہ سامنے آیا جس میں کشمیری لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے بیچا جا رہا تھا تو اس وقت محسوس ہوا کہ وادی میں ایک بڑا بھونچال آئے گا کیونکہ کشمیر جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ زلزلے سے کم نہ تھا۔

بیشتر خاندان بھارتی ریاستوں میں اپنی بہو بیٹیوں کو تلاش کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ اس سیکنڈل میں بعض ایسے مقامی لوگ ملوث تھے جنہیں عوام مسیحا تصور کرتی تھی۔ ان مسیحاؤں نے فوراً سکینڈل کو ایسی فائلوں میں غائب کر دیا کہ عوام کے بڑے طبقے نے یہ قبول کر لیا کہ یوں ہی کشمیری معاشرے کو بکھرنے کے لیے ایسی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔

ایک بڑے افسر کی (جو اس سکینڈل کا سرغنہ تھا) بیٹی نے کچھ سال گزرنے کے بعد ایک محفل میں میری اس بات کو چھیڑنے پر کہا تھا کہ ’میرے والد نے چند لڑکیوں کو روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی تھی، انہیں کہاں معلوم تھا کہ اس کی آڑ میں ان لڑکیوں سے کچھ اور کام کروایا جا رہا ہے۔ میرے والد کی خوبصورتی پر چھوٹی لڑکیاں قربان ہو جاتی تھیں، اس میں میرے والد کا کیا قصور۔‘

ہمارے روایتی معاشرے کی کچھ ایسی عادتیں ہیں جن پر ہم کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ ذرا سی آواز اٹھانے پر بعض مولوی حضرات فتویٰ جاری کرتے ہیں اور حکومت پہلے ہی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر چکی ہے۔

اب جو چند مدھم سی آوازیں کبھی کبھی سنائی دیتی ہیں انہیں فیمنزم کے زمرے میں ڈال کر مغرب کی چال سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ گویا کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عیبوں پر سے پردہ اٹھائیں تاکہ کوئی بہتری ہوسکے۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں جسم فروشی کو جائز بنانے کے قانون کے خلاف سبحان نائی بننا آسان تھا مگر جمہوری دور میں کانگریس کی حکومت میں جنسی سکینڈل پر بات کرنا شجر ممنوع بتایا گیا تھا۔ ہماری ترجیحات معاشرے کی عینک کی بجائے سیاسی عینک سے ترتیب دی جاتی ہیں۔

مثلاً ہم غیرمسلم تاجروں کو وادی میں شراب کی دکانیں چلانے سے روکنے کی مہم چلا سکتے ہیں مگر مقامی تاجروں کے ایسے کاروبار پر ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

اگر کوئی غیرکشمیری ہماری لڑکی کے ساتھ غیرشائستہ سلوک کرتا ہے تو ہم اخلاقی قدروں کو آسمان تک اچھالتے ہیں مگر جب مقامی شخص کشمیری لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے تو ہم اخلاق کو صندوقچی میں بند کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔

چند روز پہلے بھارت کے ایک میڈیا چینل ’انڈیا ٹوڈے‘ سے کشمیر میں یتیم بچوں کی فروخت سے متعلق ایک سکینڈل کی خبر آپ نے بھی شاید سنی ہوگی اور آپ کو بھی اس سے صدمہ پہنچا ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق جموں و کشمیر میں پرتشدد حالات کے پیش نظر 95 ہزار بچے یتیم ہوگئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ بعض مقامی غیرسرکاری اداروں نے چند ہزار بچوں کی پرورش کی ذمہ داری لے لی ہے لیکن کرونا (کورونا) وائرس سے ہلاک ہونے والے والدین کے بچوں کی ایک اور کہانی سامنے آئی ہے کہ انہیں وادی کے باہر 75 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے کے عوض فروخت کیا جانے لگا ہے۔

ان بچوں کی قیمت ان کی خوبصورتی کے عوض بڑھ بھی جاتی ہے۔

اس خبر کے فوراً بعد کشمیر میں ایک ہلچل مچ گئی مگر جب تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ اس کاروبار میں خود چند کشمیری بھی شامل ہیں، جن کے بغیر کشمیری بچوں کو دوسری ریاستوں میں فروخت کرنا ناممکن ہے تو بیشتر لوگ فوراً خاموش ہوگئے۔

جو قوم اپنے معاشرتی مسئلوں کی نشاندہی میں ’پک اینڈ چوز‘ کا طریقہ اپناتی ہے وہ قوم اپنے ضمیر کا سودا بھی آسانی سے کرتی ہے۔ اس کو بارود، اسلحہ، منشیات، جسم فروشی یا تشدد جیسے حربوں سے مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

میں نے 2018 میں حیدر پورہ میں ایک ایسے ہی یتیم خانے کا دورہ کیا تھا جہاں سے مجھے اطلاع ملی تھی کہ گجرات کے بعض سوداگر این جی او کا روپ دھار کر کشمیری بچیوں کو لا کر انہیں جسم فروشی پر مجبور کرتے ہیں۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ اس یتیم خانے میں رہائش پزیر 80 بچوں میں صرف چار یا پانچ بچے ہی یتیم تھے۔

دوسرا راز یہ افشا ہوا کہ خود والدین نے یہاں اپنی بچیوں کو رکھا ہے تاکہ ان کی رہائش اور پرورش کے ساتھ انہیں باہر جانے کا موقعہ مل سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معلوم ہوا کہ چند مقامی دلال گجراتیوں کے ساتھ مل کر بچیوں کو جسم فروشی کی طرف دھکیل رہے تھے۔

گجراتیوں نے ہمیں منہ بھی نہیں دکھایا مگر مقامی دلالوں پر پولیس اور سیاسی حلقوں کا اثر رسوخ دیکھ کر ہم خوف اور دہشت کا شکار ہوگئے۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ بعض بچیوں کے والدین نے آ کر دھمکی دی کہ ہم اس معاملے میں مزید مداخلت نہ کریں۔

جب حالات ایسے ہوں تو یتیم بچوں کو فروخت کرنے کے معاملے پر سے پردہ اٹھانے کی جرات کون کرسکتا ہے؟

بچوں کی فروخت کا یہ نیا معاملہ بھی خود بخود ختم ہوجائے گا اور ایسا کرنے والے باہر سے زیادہ وہ مقامی لوگ ہوں گے جن کا نصب العین ہے کہ معاشرے کو عیبوں میں غرق کرکے، قدروں کو کھوکھلا کرکے اور انسانیت کو پستی میں گرا کے کشمیریت کا جنازہ اٹھانا ہے۔

انسانوں کی تجارت کرنے والے ٹھیکیداروں نے آواز اٹھانے والوں کو پہلے ہی خاموش کیا ہوا ہے۔ بقول بشیر بدر

میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا

میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ