نوشہرہ کا دستکاری سینٹر: یتیم بچیوں اور بیواؤں کے لیے امید کی کرن

نوشہرہ کے ایک گاؤں کی سیما بابر اپنی مدد آپ کے تحت ناصرف بیواؤں اور یتیموں کو ہنرمند بناتی ہیں جبکہ ان کی صحت اور تعلیم کا خیال بھی رکھ رہی ہیں۔

ضلع نوشہرہ کے گاؤں پیر پیائی کی سیما بابر اپنی مدد آپ کے تحت ناصرف بیواؤں اور یتیموں کو ہنرمند بناتی ہیں جبکہ ان کی صحت اور تعلیم کا خیال بھی رکھ رہی ہیں۔

سماجی کان شروع کرنے سے قبل سیما ایک گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دل میں ایک جزبہ تھا کہ ’جیو تو دوسروں کے لیے اور مرو تو لوگوں کو پتہ چلے کہ کوئی دنیا سے رخصت ہوا ہے۔‘

اسی جزبے کے تحت انہوں نے اپنے گاؤں کی عورتوں کو خودمختار بنانے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے 2011 میں مفت سلائی سینٹر اور قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا آغاز کیا۔

سیما نے بتایا ’میرے پاس اس وقت 200 بیوائیں اور 400 یتیم بچے اور بچیاں رجسٹرڈ ہیں۔ سینٹرکے ہر سیشن میں 10 سے 15 بیوائیں یا یتیم بچیاں ضرور ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک بیج میں بیس، پچیس سے زیادہ خواتین نہ ہو۔ ’آج کل سترہواں بیج چل رہا ہے جس میں 45 سٹوڈنٹ نے داخلہ لیا ہے۔ ہمارے پاس جگہ کم ہے لیکن کام چل رہا ہے اور سیکھنے والے سیکھ رہے ہیں۔‘

سیما کے مطابق اب تک 550 خواتین اور بچیوں نے ہنر سیکھ لیا ہے۔ ’ہنر سکھنے کے بعد انہیں کافی کام مل رہا ہے۔‘

کیا سینٹر چلانے میں مشکلات پیش آتی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں سیما نے بتایا کہ ابتدا میں کافی مشکلات تھیں خاص طور پر  پختون معاشرے میں ایک عورت اسی وقت گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے جب گھر کے مردوں کا ساتھ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ان دنوں سینٹر کا ڈسپلے سینٹر خواتین اور بچیوں کے ہاتھوں سے بنی دستکاری سے بھرا پڑا ہے لیکن انہیں بیچنے کے لیے مدد درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیرپیائی کے علاوہ اطراف کے دیہات امان گڑھ، اضاخیل اور ڈاگ بحسود وغیرہ سے بھی طالب علم آ رہے ہیں لیکن ان کی ترجیح بے سہارا یتیم اور بیوہ خواتین ہیں۔

سینٹرکے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ سینٹر کے پاس کوئی فنڈز نہیں اور حکومت کی بھی کوئی سرپرستی نہیں۔ ’سینٹر چلانے کے لیے میرے ماموں، دو کزن اور کچھ دوستوں نے تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالنا شروع کیا تھا، جسے الحمداللہ بہت اچھےطریقے سے میں استعمال کیا تو ادارہ چل رہا ہے۔‘

سیما چیلنج کرتی ہیں کہ نوشہرہ تو کیا پورے صوبے میں ان کے جیسا سینٹر  نہیں کیونکہ یہاں پر صرف مفت تربیت ہی نہیں دی جاتی بلکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک ڈاکٹر کے تعاون سے بیواؤں کو ماہانہ وظیفہ اور 160 یتیم بچوں کے تعلیمی اور صحت کے اخراجات بھی پورے کے جاتے ہیں۔

’اس وقت 10یتیم بچے یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن کی سمسٹر فیس مخیر حضرات کے تعاون سے دی جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ 2025 تک اس سینٹر کو یو سی سے ضلعی سطح پر لے جانا چاہتی ہیں تاہم اس کے لیے وسائل اور حکام بالا کا تعاون درکار ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا