جب لکھاری کے لیے شدت پسندی نے فلاحی کام کا راستہ ہموار کیا 

کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے حسن رضا چنگیزی نے بد امنی کے دنوں میں لکھی گئی کتاب کی فروخت سے حاصل شدہ رقم نادار طلبہ کی سکول فیس ادا کرنے کے لیے استعمال کی۔

حسن رضا نے اپنے مضامین میں دیگر موضوعات کے علاوہ شدت پسندی اور دہشت گردی پر بھی اظہار خیال کیا (تصویر: سوشل میڈیا)

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو ایک زمانے میں لوگ بدامنی کے واقعات کے حوالے سے جانتے تھے اور یہاں کوئی بھی آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا، یہاں کے باسی بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔

ایک ایسے وقت میں جب لوگ گھر سے باہر نکلتے وقت ہر وقت کسی ناخوشگوار واقعے کے رونما ہونے کے خدشے کا شکار رہتے، وہاں ایک  شخص نے اس وقت کے حالات کو لوگوں کے سامنے لانے کے لیے لکھنے کا فیصلہ کیا ۔

حسن رضا کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں حالات خراب تھے اور بالخصوص ہزارہ قوم کو سخت ترین حالات کا سامنا تھا۔

'مجھ جیسا ہر حساس بندہ اس سے متاثر تھا، حالات جو بھی تھے، لیکن میں نے حالات کو سمجھنے  اور لوگوں کو بتانے کے لیے قلم کا سہارا لیا اور مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ '

کوئٹہ میں ہزارہ قوم کی ایک بڑی تعداد شہر کے مشرقی اور مغربی حصے میں آباد ہیں۔ ہزارہ برادری کو مختلف ادوار میں شدت پسندوں کے حملوں کا سامنا رہا اورسینکڑوں افراد اس کا نشانہ بنے۔

حسن رضا کے مطابق: 'چونکہ 2012 سے 2015  تک کا دورانتہائی خوف اور رنج و الم کا دور تھا، ہر طرف سے ہماری برادری کو مختلف قسم کے حملوں (جیسے خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ) کا سامنا تھا تو نہ صرف میں بلکہ کوئی بھی حساس شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ کتاب بھی لکھیں گے۔ وہ بس اس وقت کے حالات پر اپنے قلم  کے ذریعے تبصرہ کرتے رہے اور انہیں معروف نیوز ویب سائٹس کو بھیجتے رہے، لکھتے لکھتے ان مضامین کی تعداد بعد میں 30 ہوگئی۔ 

حسن رضا نے اپنے مضامین میں دیگر موضوعات کے علاوہ شدت پسندی اور دہشت گردی پر بھی اظہار خیال کیا۔ ان کی کتاب میں شامل بعض مضامین میں خطے کی سیاسی صورت حال، مشرق وسطیٰ کے بحران، خطے میں جاری پراکسی وارز اور کچھ اہم سماجی موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔

حسن رضا کے بقول: 'میرا ان مضامین کو یکجا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن دوستوں نے نہ صرف مضامین کو جمع کرنے بلکہ انہیں کتابی شکل دینے کا بھی مشورہ دیا، پھر اس کو چھپنے میں تین سال کا عرصہ مزید لگا۔'

انہوں نے بتایا: 'چونکہ ہمارے معاشرے میں کتب بینی کا شوق کم ہورہا ہے تو اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ آج کل کتاب خریدنے والا کوئی نہیں ہے، اس کتاب کو بھی کوئی نہیں خریدے گا۔'

تاہم حسن کے مطابق انہیں اس وقت انتہائی حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے پانچ سو کتابیں چھاپ کر مارکیٹ پہنچائیں اور سب دو ہفتوں میں ہی فروخت ہوگئیں۔  

انہوں نے بتایا کہ نہ صرف پانچ سو کتابیں فروخت ہوگئیں بلکہ مزید سو کتابوں کے آرڈر بھی مل گئے جس نے انہیں مزید حوصلہ دیا۔

جب کتاب کی فروخت بڑھنے لگی تو حسن کو خیال آیا کہ کیوں نہ ایک فلاحی قدم اٹھایا جائے۔ 'میں نے اس بارے میں دوستوں سے مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ کتاب کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مستحق طالب علموں کے ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تاکہ وہ تعلیم حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔'  

حسن رضا بتاتے ہیں: 'ہمارے معاشرے میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، خصوصاً طلبہ کو فیسوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، تو ہم نے اس سلسلے میں  سروے کیا اور سکولوں کی انتظامیہ سے غریب اور ضرورت مند طلبہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور انہیں ضرورت کے مطابق رقم کی فراہمی  شروع کر دی۔ ان میں ایسے  طالب علموں کی تعداد زیادہ تھی جن کے والدین فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔'

انہوں نے بتایا کہ ان کی کتاب  کے لیے زیادہ تر آرڈر امریکہ، انگلینڈ اور آسٹریلیا سے آئے۔ پھر ان ہی ملکوں میں کتاب کی تعارفی تقاریب کا بھی اہتمام کیا گیا، جن میں پاکستانی اور ہزارہ کمیونٹی کے علاوہ مقامی افراد نے بھی شرکت کی۔

حسن رضا کے مطابق: 'ہم نے عقیدے، مسلک یا زبان کی بنیاد پر طلبہ کی مدد نہیں کی بلکہ کوشش رہی کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ان بچوں تک ہماری رسائی ہو، جو حقیقت میں مدد کے مستحق ہیں۔'

انہوں نے بتایا: 'ہم نے سب کو پیغام دیا کہ اگر وہ کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح بھی مدد کی جا سکتی ہے۔ یوں نہ صرف مستحق طلبہ کی مدد ہوگی بلکہ وہ کل اپنے جیسے دیگر طلبہ کی مدد بھی کریں گے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب