اگر پارلیمان میں بجٹ منظور نہیں ہوا تو کیا ہو گا؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فنانس بل منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اخلاقی طور پر اسے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ 

بجٹ پاس نہ ہوا تو  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ سکتی ہے اور  20 فیصد اراکین یہ تحریک جاری کرا سکتے ہیں(فائل فوٹو) ۔ 

معاشی مشکلات میں گھری ہوئی حکومت کے لیے بجٹ پاس کرنا مسئلہ بن گیا ہے اور بجٹ پیش ہونے کے پانچ دن گزر جانے کے باوجود قائد حزب اختلاف شہباز شریف بجٹ پر بحث کا آغاز نہ کر سکے۔ اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قومی اسمبلی میں 11 جون کو پیش ہونے والے بجٹ کو پاس کرانے میں کامیاب ہو گی یا ایوان کا اعتماد کھو دے گی؟

اس سے پہلے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں کہ بجٹ / فنانس بل کیسے منظور ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے بعد قائد حزب اختلاف اُس پر بحث کرتے ہیں- بجٹ پر بحث کے بعد کٹوتی کے معاملات پر بحث کی جاتی ہے اور پارلیمانی رہنماؤں کو وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اس پر بات کریں۔ اس کے بعد وزیر خزانہ مطالبات زر پیش کرتے ہیں کہ کس وزرات کے لیے کتنے پیسے درکار ہیں اور حتمی بجٹ تقریر ہوتی ہے، جس کے بعد بل پاس ہو جاتا ہے۔

فنانس بل منظور نہ ہوا تو کیا ہوگا؟

سینیئر پارلیمانی صحافی صدیق ساجد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ سکتی ہے اور 20 فیصد اراکین یہ تحریک جاری کرا سکتے ہیں۔

صدیق ساجد نے بتایا کہ یہ اہم ہے کہ ووٹنگ کے وقت ایوان میں کتنے لوگ موجود ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہنگامہ آرائی کے دوران ہی بجٹ پاس ہو جائے۔ قواعد کی رُو سے پارلیمنٹ کی کل تعداد کا ایک چوتھائی یعنی 86 اراکین کی ایوان میں موجودگی ضروری ہے کیونکہ یہ ووٹنگ سادہ اکثریت سے ہونی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے 167 اراکین ہیں جن میں سے چار اراکین (خواجہ سعد رفیق، آصف زرداری، علی وزیر اور محسن داوڑ) جیل میں ہیں جبکہ حکومت کے 176 اراکین ہیں اور بجٹ پاس ہونے کی تاریخ 24 جون تک ہے۔ اپوزیشن تبھی کامیاب ہو گی جب ان کے سارے رہنما ایوان میں موجود ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سینیئر پارلیمانی صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر 29 جون تک بجٹ منظور نہ ہوا تو حکومت گرے گی نہیں لیکن پارلیمنٹ میں اپنا اعتماد ضرور کھو دے گی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اخلاقی طور پر ایسی صورت حال میں حکومت کرنے کا جواز نہیں رہتا۔ اعتماد بحالی کے لیے حکومت کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ اگرچہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بجٹ پاس نہ ہوا ہو، لیکن اس مرتبہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کیوں کہ حزب اختلاف مضبوط ہے اور حکومت کے قدم اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ 

اراکین پارلیمنٹ اور فنانس بل

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکومت فنانس بل منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اخلاقی طور پر حکومت کو استعفی دے دینا چاہیے۔ 

انہوں نے کہا کہ پیش کیے گئے بجٹ پر نہ صرف حکومتی اراکین بلکہ اتحادیوں کے درمیان بھی تخفظات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام دشمن نہیں بلکہ پاکستان دشمن بجٹ ہے۔ ہم ایوان میں اس بجٹ کے خلاف مکمل احتجاج کریں گے اور بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’اگر اپوزیشن کامیاب ہو گئی تو حکومت کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ بجٹ پاس کرانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ بجٹ کو نافذ کرنا ہے۔‘

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ بجٹ پر نظر ثانی کرے۔ مہنگائی کم کرے گی تو اپوزیشن ساتھ دینے کا سوچے گی۔‘

بجٹ مسترد ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس کیا راستہ ہے؟

پارلیمانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر بجٹ منظور نہیں ہوتا تو صدارتی آرڈر جاری کیا جائے گا، قوم کے سامنے سارا حساب کتاب رکھا جائے گا اور بجٹ نافذ کر دیا جائے گا لیکن یہ حکومت کے پاس آخری راستہ ہو گا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بجٹ کی منظوری کے حوالے سے پر امید ہیں، جنہوں نے پارلیمنٹ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے یہ بجٹ اللہ اور اتحادی پارلیمنٹیرینز کی مدد سے منظورکروانا ہے۔‘

ادھر حکومت نے بجٹ کی منظوری کے لیے بظاہر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے منگل کی رات متحدہ قومی موومنٹ کو کابینہ میں ایک اور وزارت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے کراچی کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم کے پاس دو وزارتیں قانون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہیں۔ 

وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے میڈیا میں یہ بیان میں شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ وزرا کو بجٹ منظوری کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے، وہ منظور ہو جائے گا۔ البتہ عمران خان کا یہ بیان کسی سرکاری میڈیا میں دستیاب نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان