پاکستان میں بجٹ کیسے بنتا ہے؟

اس وقت پورے ملک کی نظریں آئندہ سال کے مالی بجٹ پر لگی ہوئی ہیں۔

حکومتِ وقت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرتی ہے اور کابینہ کی منظوری کے بعد اسے مجوزہ مالیاتی بل کی شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے(اے ایف پی)

پاکستان میں ہر سال نئے بجٹ کا اعلان کیا جاتا ہے اور ہرخاص و عام اس سے بلواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوتا ہے۔اس وقت پورے ملک کی نظریں آئندہ سال کے مالی بجٹ پر لگی ہوئی ہیں۔

آج ہم ان چند اہم سوالوں کے جواب تلاش کریں گے کہ یہ بجٹ ہوتا کیا ہے؟ پاکستان میں یہ کیسے بنتا ہے؟ اوربجٹ سازی میں کیا بہتری لائی جا سکتی ہے؟

بجٹ کیا ہے؟

ایک خاص وقت میں آمدن اور اخراجات کے تخمینے کو بجٹ کہا جاتا ہے۔ حکومت کا بجٹ ایک مخصوص سال کے دوران اس کے ممکنہ اخراجات اور آمدن کی تفصیلات بتاتا ہے۔

پاکستان میں حکومتِ وقت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرتی ہے اور کابینہ کی منظوری کے بعد اسے مجوزہ مالیاتی بل کی شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے۔

جہاں سے سادہ اکثریت سے پاس ہونے کے بعد صدرِ مملکت بجٹ کی منظوری دیتے ہیں، جس کے بعد یہ ایک ایکٹ بن جاتا ہے۔

پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتا ہے اور یوں سالانہ بجٹ بھی اسی عرصے میں ہونے والے اخراجات اور آمدن کے اندازوں کا ذکر کرتا ہے۔

1973کے آئین کے باب دوئم کی بیشتر شقوں میں بجٹ سازی کا ذکر موجود ہے، جہاں بجٹ کو سالانہ مالیاتی سٹیٹمنٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بل کو منی بل کہا گیا ہے۔

بجٹ کیسے بنتا ہے؟

سالانہ بجٹ کی تیاری وفاقی وزارتِ خزانہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، جہاں فنانس ڈویژن میں قائم بجٹ ونگ یہ کام سرانجام دیتا ہے۔

وفاقی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق: اکتوبر میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ بجٹ کال سرکلر کے ذریعے وزارتوں اور ڈویژنوں سے آئندہ مالی سال کے اخراجات اور آمدنی کے اندازے طلب کیے جاتے ہیں، جو فروری تک موصول ہوتے ہیں۔

مارچ سے اپریل میں ان کی جانچ پڑتال کر کے بجٹ تجاویز مرتب کی جاتی ہیں۔ مئی اور جون میں تجاویز کو حتمی شکل دے کر سالانہ بجٹ پلان کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔

سالانہ بجٹ پلان کابینہ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر خزانہ عموما جون کے دوسرے ہفتے میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرتے ہیں، جس کے کچھ ہفتوں بعد اسے منظور کرا لیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر معاشیات ثاقب شیرانی لکھتے ہیں: پاکستان میں بجٹ بنانے کے عمل میں زیادہ توجہ اثاثوں (کتنے روپے مختص ہوئے) اور پیداوار(کتنے سکول یا کتنی کلومیٹر سڑک بنے گی) پر دی جاتی ہے۔ نہ کہ نتائج یا سارے عمل کے اعلی معیار پر۔

’کسی ملک میں بجٹ سازی کا عمل شفاف، شراکت پر مبنی، ذمہ داراور عوام اور ریاست کی ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے۔(پاکستان میں) یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے وسیع تر ادارتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

پارلیمان کا کردار

قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے دو روز بعد منی بل پر بحث شروع ہوتی ہے اور عموما بارہ سے سترہ دن میں بجٹ منظور کر لیا جاتا ہے۔

تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے مطابق: پاکستان میں بجٹ بنانے کے عمل میں پارلیمنٹ کی راہ میں اہم رکاوٹیں مثلا وقت کی کمی، قائمہ کمیٹیوں کی عدم شمولیت اور پارلیمنٹ کے ادارے میں تحقیق کی استعداد کا فقدان ہیں۔

قومی اسمبلی کی مجموعی طور پر 41 قائمہ کمیٹیاں ہیں جبکہ سینیٹ کمیٹیوں کی تعداد 28 ہے لیکن بجٹ تجاویز کسی بھی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھی جاتیں۔

ثاقب شیرانی لکھتے ہیں: بجٹ بنانے کے عمل میں پارلیمنٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ فنانس کی قائمہ کمیٹی اور کابینہ کو بھی بہت دیر سے مجوزہ بجٹ کی معلومات دی جاتی ہیں۔

پلڈاٹ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے بجٹ عمل کا موازنہ بھارت اور کینیڈا سے کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بھارت اور کینیڈا کی پارلیمانی کمیٹیاں بجٹ کے عمل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے حکومتی تجاویز کا جائزہ لینے میں پارلیمنٹ کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ دوسرا فرق یہ کہ بھارت اور کینیڈا کے ایوان پورے بجٹ بشمول دفاعی اخراجات کا جائزہ لیتے اورجانچ پڑتال کرتے ہیں۔

بجٹ کے پاس کرنے میں سینیٹ کا کردار بہت محدود ہے، جہاں بجٹ پر بحث بھی ہوتی ہے اور تجاویز بھی دی جاتی ہیں۔ تاہم حکومت ان پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔

حزب اختلاف کا کردار

مغربی جمہوریتوں میں حزب اختلاف کی شیڈو حکومتیں ہوتی ہیں، جو حکومتی کارکردگی اور پالیسیوں کا ناقدانہ تجزیہ کرتے ہوئے متبادل پالیسیاں پیش کرتی ہیں۔

شیڈو حکومتیں بجٹ کی تیاری کے عمل پر بھی نظر رکھتی ہیں اور عوامی مفادات کے پیش نظر اپنا بجٹ بھی پیش کرتی ہیں۔

پاکستان میں اس قسم کی کوئی پریکٹس موجود نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا بجٹ کی تیاری میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ انہیں منی بل اور دوسری متعلقہ دستاویزات اُس دن ملتی ہیں جب وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہیں۔

منی بل پیش ہونے کے دو دن کے وقفے سے ایوان میں اس پر بحث شروع کی جاتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس یہی دو دن ہوتے ہیں جس دوران وہ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاسوں میں منی بل پر غور کر سکتی ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے: بہتر ہے پاکستان میں حزب اختلاف کو بجٹ بنانے کے عمل میں شامل کیا جائے۔ کم از کم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو اس عمل کا حصہ ضرور بنایا جانا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت