وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں ایسے اقدامات متعارف کروانے کی توقع ہے، جس کا مقصد ٹیکس نظام میں اصلاحات کے ساتھ ملک کو کیش پر مبنی نظام سے نکال کر ڈیجیٹل معیشت کی طرف منتقل کرنا ہے۔
ممکنہ طور پر 10 جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں حکومت ایک منصوبہ متعارف کروانے والی ہے، جس کے تحت کیش اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے مختلف ٹیکس ریٹ مقرر کیے جائیں گے۔
اس مجوزہ اقدام کا مقصد کاروباری طبقے اور عام صارفین کو کیش کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی اپنانے پر آمادہ کرنا ہے۔ ممکنہ طور پر پیٹرول سمیت بعض اشیا کی قیمتیں بھی صارف کے ادائیگی کے طریقہ کار سے مشروط کی جائیں گی، یعنی کیش ادائیگی پر قیمت زیادہ جبکہ ڈیجیٹل ادائیگی پر کم ہو سکتی ہے۔
اگر اس اقدام کا نفاذ ہوتا ہے تو پیٹرول پمپوں پر ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے پوائنٹ آف سیل مشینیں، کیو آر کوڈ، این ایف سی ٹیکنالوجی اور موبائل والٹس جیسے جاز کیش، ایزی پیسہ وغیرہ استعمال کیے جائیں گے۔ صارف کارڈ، موبائل یا ایپ کے ذریعے ادائیگی کر کے پیٹرول حاصل کر سکیں گے۔
اس پالیسی کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے کو محدود سطح پر ٹیکس ریلیف فراہم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، جس کے تحت 1 سے 1.5 فیصد تک ٹیکس کمی ممکن ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ٹیکس نیٹ میں توسیع اور نظام میں شفافیت کے لیے یہ اصلاحات بجٹ کا حصہ بنائی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تصدیق کی کہ نقد رقم کے استعمال میں کمی کے لیے ایک اقدام شروع کیا گیا ہے، تاہم انہوں نے بتایا کہ ’ہم نقدی کو مکمل طور پر ختم نہیں کر رہے، یہ عمل جاری ہے۔ یہ ابھی حتمی نہیں ہوا، لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسا ہوگا۔‘
ڈیجیٹل ادائیگی کا رجحان پاکستان کی معیشت اور عوام کے لیے کتنا کار گر ثابت ہو سکتا ہے، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین سے جاننے کی کوشش کی۔
ماہرِ معیشت ظفر موتی والا سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے معیشت مضبوط ہوگی، تاہم وہ اس نظام کی کامیابی کے حوالے سے کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آئے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظفر موتی والا نے بتایا کہ ’پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کا رجحان یقینی طور پر سہولت فراہم کرے گا اور یہ قومی معیشت کو زیادہ شفاف اور مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔
’تاہم پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کی پالیسی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، کیونکہ یہاں تقریباً 75 فیصد مالی لین دین نقدی کی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ صرف 25 فیصد قانونی یا رجسٹرڈ طریقوں سے کیا جاتا ہے۔‘
ظفر موتی والا نے تھائی لینڈ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’وہاں ڈیجیٹل ادائیگی کا رجحان ہم سے کہیں زیادہ ہے، اس کے باوجود وہاں بھی اکثریت نقدی کے استعمال پر ہی انحصار کرتی ہے۔ ان کے مطابق، ایسی سکیمیں صرف آن لائن اور حکومتی دفتری ملازمین تک محدود دکھائی دیتی ہیں، جہاں تنخواہ دار طبقہ انہیں اپناتا ہے۔‘
بقول ظفر موتی والا: ’پاکستان میں عام طور پر ’کٹ اینڈ پیسٹ‘ طرز کی سکیمیں بنائی جاتی ہیں جو صرف کاغذوں پر اچھی لگتی ہیں، لیکن انہیں عملی طور پر لاگو کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ مالیاتی ڈھانچہ اور عوامی رویے ایسے اقدامات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔‘
ماہرِ اقتصادیات جاوید خنانی بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کے فروغ کی راہ میں کئی عملی رکاوٹیں موجود ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ملک کی ایک بڑی آبادی کے پاس نہ تو اے ٹی ایم یا بینک کارڈ موجود ہیں، اور نہ ہی وہ آن لائن یا کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
’دیہات اور چھوٹے شہروں میں تو کارڈ کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اگر حکومت زبردستی اس نظام کو لاگو کرتی ہے تو یہ وقتی طور پر ممکن ہو سکتا ہے، مگر دیرپا اور مؤثر نہیں ہوگا۔‘
جاوید خنانی نے مزید کہا کہ 'عوامی مزاج اور سہولیات کی عدم دستیابی ایسے اقدامات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔‘
حکومت کی جانب سے دو فیصد اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، جو موجودہ شرح کے مقابلے میں فائلرز کے لیے 15 سے بڑھ کر 17 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 35 سے بڑھ کر 37 فیصد ہو جائے گی۔
جاوید خنانی کے مطابق اس اضافی بوجھ کا براہِ راست اثر بینکنگ سیکٹر اور معیشت پر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا: ’بینکوں میں موجود سرمایہ کم ہو جائے گا، کیونکہ لوگ رقم نکال کر اسے غیر رسمی ذرائع یا دوسرے کاروباروں میں منتقل کر دیں گے۔ اس سے نہ صرف بینکنگ نظام کو نقصان ہوگا، بلکہ حکومت کی مالیاتی حکمتِ عملی بھی متاثر ہو گی۔ایسی پالیسیوں سے پہلے ملک کی معاشی ساخت، عوامی رجحانات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے، ورنہ یہ اقدامات فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام: خوش آئند قدم یا عام آدمی پر بوجھ؟
ماہر معیشت چوہدری محمد اکمل کہتے ہیں کہ لوگوں کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ نظام ان پر ایک ’اضافی بوجھ‘ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ڈیجیٹل معیشت کی طرف پیش رفت ایک مثبت اور جدید سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسے نظام سے قومی معیشت میں شفافیت، مالیاتی نظم و ضبط اور ٹیکس نیٹ میں اضافے کی امید کی جاتی ہے، تاہم اس سمت میں مؤثر پیش رفت کے لیے بنیادی ڈھانچے کی مکمل دستیابی لازمی ہے۔
’اس وقت ملک کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں نہ تو مستحکم انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی مکمل بینکاری نظام۔ ایسی صورت حال میں کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کا استعمال صرف شہروں کے محدود اور متوسط سے بالاتر طبقے تک محدود ہے۔‘
چوہدری محمد اکمل کے مطابق: ’پاکستان کی 24 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 42 فیصد افراد غربت یا خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام نہ صرف ناقابلِ رسائی ہے بلکہ ایک اضافی بوجھ کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’ایک موٹرسائیکل سوار کے لیے صرف چند سو روپے کا ایندھن خریدنے پر آن لائن ادائیگی کی شرط نہایت مشکل مرحلہ بن جائے گی۔ یہ درحقیقت ایک نئے طرز کا ٹیکس محسوس ہوتا ہے، جو عام آدمی کی جیب پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔‘
چوہدری محمد اکمل کے مطابق: ’ایک متوازن تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ نقد اور کارڈ دونوں ادائیگی کے طریقے برقرار رکھے جائیں۔ کارڈ سے ادائیگی کرنے والوں کو فی لیٹر پیٹرول یا دیگر اشیا پر ایک یا دو روپے کی رعایت دی جائے۔ اس طرح کارڈ کے استعمال کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی اور عوام پر دباؤ بھی نہیں پڑے گا۔ اندازاً اس طریقے سے حکومت کو 300 سے 400 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔
’تاہم عام شہری پر بوجھ ڈال کر زبردستی اس نظام کو نافذ کرنا ایک معاشی اور سماجی زیادتی ہوگی۔ ڈیجیٹل پاکستان کی منزل ضرور حاصل کی جائے، لیکن اس راستے میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔‘
اس نظام کے حوالے سے شہریوں کی ملی جلی رائے سامنے آئی۔ انڈپینڈنٹ اردو نے جن افراد سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اگر ڈیجیٹل ادائیگی کی پالیسی متعارف کرواتی ہے تو اس میں سہولت تو ہو گی لیکن غریب طبقے پر اس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پیٹرول کی نقد ادائیگی پر اتنا زیادہ فرق نہیں آئے گا لیکن اگرآن لائن ادائیگی عمل میں آئے گی تو شہر میں جرائم کی وارداتوں سے محفوظ ہو جائیں گے اور محدود کیش اپنے پاس رکھیں گے۔‘
ڈیجیٹل معیشت کی طرف پیش قدمی: وجوہات اور اثرات
صحافی اسلم خان سمجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت کی جانب پیش قدمی منظم معاشی حکمت عملی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر ڈیجیٹل ادائیگی کو ترجیح دینے اور نقد ادائیگی پر اضافی قیمت عائد کرنے کا فیصلہ صرف ایک تکنیکی یا مالیاتی قدم نہیں، بلکہ ایک گہری اور منظم معاشی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے پیچھے کئی اہم وجوہات موجود ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی ہے، جہاں مالی لین دین کا زیادہ تر حصہ نقدی میں ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سی ٹرانزیکشنز حکومتی ریکارڈ سے باہر رہتی ہیں، خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت جیسے بڑے پیمانے کے شعبے میں۔ اکثر پیٹرول پمپوں پر فروخت کی مکمل رپورٹنگ نہیں کی جاتی، جس سے حکومت کو ریونیو کی مد میں بڑا نقصان ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کے ذریعے ہر لین دین کا مکمل ریکارڈ خودکار طریقے سے دستیاب ہوتا ہے، جو ٹیکس چوری کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
اسلم خان کے مطابق: 'اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے، اندرونی و بیرونی قرضوں اور مہنگائی کے دباؤ کے پیشِ نظر ٹیکس آمدنی بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے فروغ سے نہ صرف سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی مؤثر وصولی ممکن ہے، بلکہ اس سے ملک کے مجموعی ٹیکس نیٹ میں بھی وسعت آ سکتی ہے۔
’بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف بھی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ پاکستان اپنی معیشت کو دستاویزی اور شفاف بنائے۔ ڈیجیٹل لین دین کا نظام ان عالمی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ، ملکی مالیاتی ساکھ کو بہتر بنانے اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘
بقول اسلم خان: ’اس اقدام کا ایک اور بڑا فائدہ پیٹرولیم مصنوعات کی مکمل سپلائی چین پر نظر رکھنا ہے۔ ریفائنری سے لے کر ڈپو، ٹرانسپورٹ اور پیٹرول پمپ تک اگر ہر سطح پر لین دین ڈیجیٹل ہو تو حکومت کے لیے ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور غیر قانونی منافع خوری جیسے مسائل پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔‘