شہباز قلندر، ’مزار پر مہندی کی رسم میں مہندی نہیں ہوتی‘

سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر عرس کے دنوں میں رسم مہندی ادا کی جاتی ہے لیکن مہندی اٹھانے والوں کے مطابق اس رسم میں مہندی نہیں ہوتی۔

صوبہ سندھ کے قدیم شہر سیہون میں عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے مزار پر 770 سالوں سے سالانہ سہ روزہ عرس بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔
یوں تو اس مزار پر عقیدت مند پورا سال آتے ہیں مگر عرس کے دوران زائرین کی تعداد لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ اس موقعے پر مختلف رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں رسم مہندی بھی شامل ہے۔

عرس کے پہلے روز رسم مہندی سید ولی محمد شاہ لکیاری کے مقام سے برآمد ہوتی ہے، دوسرے روز مول چند کے مقام سے جب کہ عرس کے تیسرے دن سب سے بڑی مہندی لعل داس سے برآمد ہو کر اپنی روایتی گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے اذان مغرب سے پہلے مزار پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں زائرین اور مقامی افراد اس رسم مہندی میں شرکت کرتے ہیں۔

عموماً زائرین سمجھتے ہیں کہ اس رسم کا تعلق مہندی سے ہے لیکن ایسا نہیں۔

مہندی کی اس رسم کے متعلق مہندی بردار اور ہندو برادری کے مرحوم لعل داس کے بڑے بیٹے لعل گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وضاحت کی کہ یہ ہاتھوں پر لگانے والی مہندی نہیں ہوتی بلکہ سر پر اٹھائی جانے والی سفید چادر کے اندر ایک غلاف ہوتا ہے جو مزار پر چڑھایا جاتا ہے۔

پہلی اور دوسری مہندی میں بھی غلاف ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ تیسری مہندی سب سے بڑی مہندی ہوتی ہے، جس کا غلاف پورا سال لعل شہباز قلندر کے مزار پر چڑھا رہتا ہے۔

’باقی رسم مہندی میں شریک ہونے والے زائرین اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا کر آجاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ رسم مہندی لعل شباز قلندر کی وفات کے بعد سے چلی آ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد لعل داس کو رسم مہندی کی ذمہ داری یوں سونپی گئی کہ ’تیسری مہندی کے ہم سے پہلے مہندی بردار سے کچھ غلطیاں سرزرد ہوئیں جس کی وجہ سے ہماری ہندو پنچائت نے ان سے رسم مہندی واپس لے لی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہندو پنچایت نے ان کی غلطی کو مدنظر رکھتے ہوئے رسم مہندی کی ذمہ داری میری والد صاحب کو سونپی تو اس وقت میرے والد نے پنچائت کو کہا کہ میں یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا کیونکہ مجھ میں اتنی سکت نہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا والد کو پہلے ہی مزار پر چراغاں روشن کرنے کی ذمہ داری ملی ہوئی تھی اور  چونکہ ماضی میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے چراغ روشن کرنا پڑتے تھے تو انہیں اس کام سے فرصت نہیں ملتی تھی۔

’بہرحال پنچایت کے مسلسل اصرار اور دباؤ پر والد صاحب نے نئی ذمہ داری سنبھال لی۔‘

’اس کے بعد والد صاحب نے رسم مہندی اٹھانا شروع کی۔ میرے والد کی وفات کے بعد میرے رشتے داروں کو یہ ذمہ داری ملی۔پھر جب میں جوان ہوا تو انہوں نے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی۔‘

عرس کے موقعے پر پشاور سے  آئے ایک زائر محفوظ خان نے بتایا کہ وہ گذشتہ 27 سالوں سے ہر سال عرس پر آتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے منتیں پیش کرتے ہیں۔

محفوظ جان نے اپنے ہاتھوں میں مہندی اٹھائی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے ایک دوست کی منت تھی۔

’اس کی منت پوری ہوئی تو میں چڑھاوے کے طور پر یہاں مہندی لے کر آیا ہوں۔ 27 سالوں سے میں نے جو بھی منت اپنے اور دوسروں کے لیے مانگی وہ پوری ہوئی۔‘

انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ مرتے دم تک یہاں آتے رہیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا