’یوکرین نے بین الاقوامی برادری کی انتخابی صلاحیت کو بے نقاب کیا‘

برطانیہ میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زملط نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اگر وہ سب مزاحمت کریں جو یوکرینی عوام کر رہے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔

سی این این کے پروگرام کنیکٹ ود دا ورلڈ میں میزبان بیکی اینڈرسن  سے بات کرتے ہوئے برطانیہ میں فلسطینی سفیر حسام زملط کا کہنا تھا کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی میڈیا یوکرینیوں پر ہتھیار اٹھانے اور اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جب کہ فلسطینیوں کو اپنے دفاع کے لیے دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطین کو تسلیم کروانے کے لیے ہم کئی برسوں سے آئی سی سی اور اقوام متحدہ میں جا رہے ہیں۔ اور اندازہ کریں پھر کیا ہوا کہ برطانیہ سمیت مغربی ممالک نے درحقیقت ایک پبلک لیٹر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی عدالت انصاف تک رسائی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

’تو یہاں کوئی تفریق نہیں ہے، تفریق ادھر ہے، بین الاقوامی برادری میں ہے، یہ بین الاقوامی میڈیا میں ہے۔ آپ مجھے بتائیں، کہ آپ یوکرینی عوام کو کیا مشورہ دیں گی کہ انہیں کیا کرنا چاہیے؟‘

’میں نے دیکھا میڈیا ان کو دکھا رہا ہے کہ وہ اسلحہ اٹھا رہے ہیں، اپنے وطن کا دفاع کر رہے ہیں اور بوتل بم پھینک رہے ہیں اور جب فلسطینیوں کی بات آتی ہے تو ہمیں ابھی بھی بحیثیت دہشت گرد بیان کیا جاتا ہے۔‘

’تو یہ صرف وقت کی بات ہے، اچھے وقت کی بات۔ ہم صورتحال کو بالکل اسی طرح سمجھتے ہیں جیسے وہ ہے۔ فلسطینی  اس کو سمجھ چکے ہیں۔‘

انٹرویو کے دوران میزبان نے سوال کیا کہ  ’فی الحال ویسٹ بینک میں بڑے پیمانے پر پرتشدد احتجاج کی کوئی علامت نہیں ہے۔ کیا آپ کو یہاں اس نقطے پر کوئی تبدیدلی نظر آتی ہے؟‘

اس سوال کے جواب میں حسام زملط کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی لوگ74 سال سے اپنی زمین پر ہیں۔ ہمارے اوپر ظلم کی بہت ساری کوششیں ہوئی ہیں۔ نہ صرف ان48 علاقوں سے جو اسرائیل میں چلے گئے ہیں بلکہ میرے والدین کو گھر سے نکال دیا گیا اور میں مہاجر بن گیا تھا اور میں  غزا کے جنوب میں مہاجر کیمپ میں رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہ  ایک جاری بحران ہے، آپ کو روزانہ گھر منہدم ہونے اور وہاں سے انخلا کے بارے میں پتہ چلتا ہے اور میڈیا صرف ’دہشت گردانہ‘ صورتحال دیکھاتا ہے  جب اسرائیل پر حملے ہوتے ہیں۔‘

’صرف گذشتہ سال78 بچوں سمیت تین ہزار55سے زائد فلسطینی مارے گئے۔ اور یہ بھی نہیں دکھایا گیا۔ ہر گھر، ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی بچہ ہلاک ہوا ہے۔ اور خواتین نہ سفر کرسکتی ہیں نہ کام کر سکتی ہیں۔‘

’انسانی حقوق کی تنظیمیں جانتی ہیں کہ فلسطینی عوام روزانہ کس طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیوں بنیادی وجوہات تک نہیں پہنچ پا رہے؟ ہم اسرائیل کو قانون سے بالاتر ہونے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں؟ اور کیا آپ جانتی ہیں کہ یوکرین کی صورتحال نے بین الاقوامی برادری کے طرز انتخاب کو بالکل عیاں کر کے رکھ دیا ہے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا