انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے گذشتہ سال تین سو سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا، جو 2014 کے بعد سے سب سے ہلاکت خیز سال رہا اور اس دوران مارا جانے والا ہر پانچواں شخص ایک بچہ تھا۔
بتسیلم نامی فلاحی ادارے کے مطابق 2021 میں تقریباً 900 فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا کیونکہ اسرائیل کی جانب سے اس سال فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری پانچ سال کی بلند ترین سطح پر رہی۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بیت المقدس میں قائم اس تنظیم نے مزید بتایا کہ گذشتہ سال کے دوران اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ’مہلک، غیر اخلاقی اور کھلے عام فائرنگ کی پالیسی‘ کے استعمال کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں 71 بچوں سمیت 313 فلسطینی مارے گئے۔
ان میں سے 70 فیصد افراد جنگجو گروپ حماس کے ساتھ مئی میں ہونے والی جنگ کے دوران مارے گئے۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں جہاں کئی فلسطینی مارے گئے وہیں فلسطینی راکٹ حملوں میں دو اسرائیلی بچوں سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کئی روز تک جاری رہنے والی اس کشیدگی کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بھی 77 فلسطینی مارے گئے۔
بتسیلم نے کہا کہ اسرائیلی اہلکار کھلے عام فائرنگ کی پالیسی کا دفاع کرتے ہیں جس کے بارے میں گروپ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی زیادہ تر حالات میں ہلاکت خیز طاقت کے بلاجواز استعمال کی اجازت دیتی ہے اور یہ کہ اسے خود اسرائیلی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پالیسی کا استعمال متناسب ہو یا مثال کے طور پر اس وقت کرنے کی ضرورت ہو جب جانیں فوری طور پر خطرے میں ہوں۔
تنظیم نے لکھا کہ اس کے باوجود حقائق اس کے برعکس ہیں یعنی ہلاکت خیز کھلے عام فائرنگ ایک معمول کا حصہ ہے اور اس کے لیے اسرائیل میں کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔
تنظیم نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں سینکڑوں رہائشی مکانات کو مسمار کیے جانے کے بعد گذشتہ سال 895 فلسطینی، جن میں 463 بچے بھی شامل ہیں، بے گھر ہو گئے۔ یہ 2016 کے بعد فلسطینیوں کے مسمار کیے گئے مکانات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
عام طور پر اسرائیل عمارتوں کے اجازت ناموں کی عدم موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے باقاعدگی سے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرتا ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے یہ اجازت نامے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے چاہے یہ تعمیر ان کی ذاتی ملکیتی زمین پر ہی کیوں نہ کی گئی ہو کیوں کہ اجازت ناموں کے بغیر تعمیر کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
B'Tselem کے مطابق مسماری کا یہ عمل ’قانون کے نافذ‘ کا معاملہ نہیں جیسا کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے لیکن اصل میں یہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
گروپ نے کہا: ’اسرائیل کی نسل پرست حکومت مشرقی بیت المقدس سمیت مغربی کنارے کے وسیع حصوں میں تقریباً تمام فلسطینیوں کو تعمیرات سے روکتی ہے جب کہ وہ خود یہودیوں کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیرات کر رہی ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے اسرائیلی فوج اور لندن میں اسرائیلی سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن انہیں ابھی تک اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے پہلے ہی غزہ کی پٹی میں ممکنہ جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام کا سامنا کرنے والی اسرائیلی فوج نے سختی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے حماس کے خلاف بھی اسرائیلی شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ سمیت جنگی جرائم کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ماضی میں اسرائیلی سکیورٹی حکام نے دی انڈپینڈنٹ کو جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا کہ وہ ہر حملے یا حملے کی منصوبہ بندی احتیاط سے کرتے ہیں تاکہ یہ قانون کے مطابق لازمی اور متناسب ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’آپریشن 'گارڈین آف دی والز' 2014 کے بعد پہلا بڑا آپریشن تھا۔ آپریشن کے دوران حماس نے اسرائیلی شہریوں پر اندھا دھند 4,400 سے زیادہ راکٹ داغے۔ جبکہ حماس نے شہروں اور گنجان آباد شہری مراکز پر اندھا دھند راکٹ فائر کیے۔‘
’آئی ڈی ایف [اسرائیلی فوج] نے صرف جائز فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جیسے راکٹ لانچرز، ہتھیاروں کی تیاری اور پیداواری سہولیات اور سائبر وارفیئر انفراسٹرکچر وغیرہآ‘
فوج نے حماس پر مغربی کنارے میں ’دہشت گردانہ سرگرمیوں پر اکسانے‘ کا الزام بھی لگایا جہاں فوج کا کہنا ہے کہ ’وہاں ہفتہ وار پرتشدد فسادات ہوتے رہے۔‘
اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ ’ہر اس واقعے کی تحقیقات کی جاتی ہیں جس میں کوئی شخص اپنی آپریشنل سرگرمیوں کے دوران مارا جاتا ہے۔ B'Tselem نے واضح طور پر’رپورٹ‘ کو شائع کرنے سے پہلے [فوج] کو جانچ کے لیے پیش نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے، اس طرح حالیہ برسوں میں اسرائیل اور ریاست کے خلاف غیر مصدقہ، جانبدارانہ اور غیر متعلقہ الزامات شائع کرنے کی اپنی پالیسی کو جاری رکھا۔‘
اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا بھی دفاع کیا ہے اور اس سے انکار کیا ہے کہ یہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے بھی ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ایک نسلی عصبیت والی ریاست ہے۔ انہوں نے ان الزامات کو ’بے بنیاد اور جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی الزام تراشی ’دیرینہ اسرائیل مخالف ایجنڈے‘ کا حصہ ہیں۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل 2005 میں غزہ سے نکل گیا تھا اور اب اس علاقے پر حماس کی حکومت ہے جس کو امریکہ اور برطانیہ نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ پانچ لاکھ سے زائد یہودی آباد کار مقبوضہ علاقوں سے نکل جائیں۔ اسرائیل اپنی مقدس کتاب میں ان زمینوں پر تاریخی دعوؤں کا حوالہ دیتے ہوئے اس مطالبے کو مسترد کرتا ہے۔
بتسیلم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال 14 مئی مقبوضہ مغربی کنارے میں 2002 کے بعد سب سے ہلاکت خیز دن تھا جس میں 13 فلسطینی مارے گئے تھے۔ چیریٹی نے کہا کہ اس جرم میں اسرائیلی آباد کار بھی شامل تھے۔
گروپ نے کہا کہ انہوں نے پچھلے سال یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر تشدد میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ 2021 میں بتسیلم نے ایسے 336 واقعات کی تحقیق کی، جبکہ ان واقعات کی تعداد 2020 میں 251 تھی۔
گروپ نے مزید کہا: ’یہ واقعات کافی حد تک واضح کرتے ہیں کہ یہودی آباد کاروں کی جانب سے تشدد کوئی نجی اقدام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اور آلہ ہے جسے اسرائیل کی نسل پرست حکومت زیادہ سے زیادہ فلسطینی اراضی پر قبضے کے لیے استعمال کرتی ہے۔‘
اسرائیلی حکام اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور فوج نے گذشتہ سال دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ وہ ’علاقے کے تمام رہائشیوں کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے اور اپنی زیر کنٹرول علاقوں میں تشدد کو روکنے کے لیے کام کرتی ہے۔‘
دوسری جانب منگل ہی کو اسرائیلی وزیر داخلہ آیلیٹ شیکڈ نے کہا کہ اسرائیل اپنے شہریوں کے لیے امریکی ویزا چھوٹ کے ایک مجوزہ معاہدے کے تحت دوہری شہریت رکھنے والے فلسطینی نژاد امریکیوں کو اپنی سرزمین پر جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل ان فلسطینیوں کی اسرائیلی سرزمین پر رسائی کو سختی سے محدود کرتا ہے جنہیں بیرون ملک سے آنے پر اردن اور اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے کی حدود یا مصر کے صحرائے سینا سے غزہ تک مشکل سفر کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیلی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینی نژاد امریکیوں کو اسرائیل-ٹرانزٹ آپشن دینا امریکیوں کی طرف سے دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا: ’شن بیٹ (اسرائیلی سکیورٹی سروس) اس (صورت حال) کو سنبھال سکتی ہے۔
© The Independent