ٹی ٹی پی کی نئی نظریاتی حکمتِ عملی

ٹی ٹی پی افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان طالبان کی کامیابیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

26 نومبر 2008 کی اس تصویر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر لطیف محسود کو دیکھا جا سکتا ہے، لطیف محسود ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی تھے(اے ایف پی)

31 مارچ کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے پاکستان کے خلاف تازہ کارروائیوں کی لہر کو ’البدر‘ کا عنوان دے کر ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس میں اب تک 24 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 18 زخمی ہو چکے ہیں۔

ان میں سے سات اہلکار ٹی ٹی پی کے 15 اپریل کے حملوں کا نشانہ بنے جس کے بعد پاکستانی فضائیہ نے مبینہ طور پر کنڑ اور خوست میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

ان واقعات کے تناظر میں پاک افغان تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ کارروائیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کس طرح یہ تنظیم افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان طالبان کی کامیابیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اگست کے بعد سے ٹی ٹی پی نے اپنے سٹریٹجک اہداف اور حکمت عملیوں میں اہم آپریشنل اور سٹریٹیجک تبدیلیاں کی ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلا سے پہلے ہی ٹی ٹی پی نے عالمی سطح پر جہاد کی باتیں بند کر دی تھیں۔ ایسا کرتے ہوئے اس تنظیم نے اپنی توجہ مقامی طور پر پاکستان کو طالبان طرز کی اسلامی امارت بنانے پر مرکوز کی ہے اور ساتھ ہی پشتونوں کی تکالیف اورمصائب کے بیانیے کو اپنایا ہے۔

2021 میں ٹی ٹی پی نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو القاعدہ کی ثالثی میں متحد کیا گیا ہے۔

حیران کن طور پر ٹی ٹی پی نے القاعدہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی کی سختی سے تردید کی اور اپنے آپ کو پاکستان پر مرکوز تنظیم کے طور پر پیش کیا۔ القاعدہ سے خود کو الگ کرنے کا ٹی ٹی پی کا طرز عمل طالبان کے طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے جہاں مؤخر الذکر نے القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات کواعلانیہ طور پر محدود کر دیا تھا۔

اسی طرح ٹی ٹی پی نے گذشتہ سال داعش خراسان کی خود ساختہ خلافت کے دعوے کو جعلی اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت بھی کی تھی۔

اگرچہ داعش خراسان اورکزئی اور باجوڑ کے قبائلی اضلاع سے ٹی ٹی پی کے الگ ہونے والے دھڑوں پر مشتمل ہے، لیکن ٹپاکستانی طالبان نے اب تک داعش خراسان پر اعلانیہ تنقید نہیں کی تھی۔ داعش خراسان پر ٹی ٹی پی کی حالیہ کھلی تنقید بھی طالبان کی داعش کی مذمت کرنے کی پالیسی سے مطابقت رکھتی ہے۔

ٹی ٹی پی کی داعش خراسان پر تنقید اس کی اس حکمت عملی کا بھی حصہ تھی کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی سے دور ہو جائے اور اپنے آپ کو صرف ایک مقامی عسکریت پسند گروپ کے طور پر ظاہر کرے جس کی دلچسپی پاکستان میں، اور خاص طور پر پشتونوں کی محرومیوں کے بیانیے کو بنیاد بنا کر دہشت گردی پھیلانے پر مرکوز ہے۔

پاکستان کے سابق وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی محرومیوں کو اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کو بنیاد بنانا ٹی ٹی پی کے نئے جنم کی ایک نمایاں وجہ بنا ہے۔

ٹی ٹی پی نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت کے نکتے کے گرد اپنی شدت پسندانہ سرگرمی کو ترتیب دیا ہے۔ اب تک سرحد کے 97 فیصد حصے پر باڑ لگا دی گئی ہے اور بقیہ کام آئندہ چند ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔

ٹی ٹی پی کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے حملے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت کرنے کے اس کے موقف کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ٹی ٹی پی سابق فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کی پرتشدد مخالفت کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علاوہ ازیں ٹی ٹی پی نے اپنے مختلف بیانات اور پروپیگینڈا میں سابق فاٹا کے علاقوں میں پاکستانی فوج کی موجودگی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اس تنظیم کے بیانات اور تقاریر کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پشتون قبائلی طرزِ زندگی اور قبائلی روایات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلام پسندی کے نکات کو مسلسل استعمال کے اپنی کارروائیوں کو جواز فراہم کر رہی ہے۔

ٹی ٹی پی اپنی موجودہ شکل میں ایک شدت پسند تنظیم ہے جس میں شامل اکائیاں علاقائی سطح پر دہشت گردانہ شورش برپا کرتی ہیں۔ ایسی دہشت گرد اکائیوں کو چونکہ عوامی تائید حاصل نہیں ہوتی اس لیے وہ متنازع معاملات پر عوام میں اشتعال پیدا کرنے اور سیاسی یا سماجی خدمات کی آڑ میں دہشت گردی کرنے کے حربے استعمال کرتی ہیں۔

ٹی ٹی پی کے تنظیمی ڈھانچے، آپریشنل حکمتِ عملی اور ہدف سازی میں ان تبدیلیوں کا سہرا موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود کے سر جاتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی اور طالبان حکومت کے درمیان بنیادی کشیدگی کی وجہ کے طور پر ابھری ہے۔ بار بار پاکستانی درخواستوں کے باوجود طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے فوراً بعد پاکستان نے اپنے مطلوب ٹی ٹی پی رہنماؤں اور کمانڈروں کی فہرست طالبان انتظامیہ کے حوالے کر دی تھی۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پاکستانی دعووں کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی، تاہم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہ لائی جا سکی۔ اس کے برعکس طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کو خود کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے کیسے نمٹا جائے۔

حالیہ میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف اپنی پرتشدد مہم کے لیے کابل میں چندہ اکٹھا کر رہی ہے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے پوسٹر دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ دیکھے گئے ہیں جنہیں موجودہ طالبان حکومت جنگی ہیرو تصور کرتی ہے۔ طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ گہرے نسلی، سیاسی اور نظریاتی روابط ہیں۔

طالبان کا طرزِ عمل اپناتے ہوئے ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف اپنے پروپیگینڈے میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ٹی ٹی پی اب پاکستان میں ہونے والی تمام اہم سرگرمیوں پر تبصرے کرتی ہے۔

حال ہی میں اس نے پاکستان میں جاری سیاسی بحران پر ایک بیان جاری کیا جس میں طالبان کی طرز پر شرعی نظام کو پاکستان کے سیاسی حالات کا بہترین حل بتایا گیا۔ ٹی ٹی پی پاکستان سے متعلق مختلف مسائل پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے انفوگرافکس، آڈیو، ویڈیو بیانات اور تقاریر پیش کرتی ہے۔

پاکستان کو پاک افغان سرحدی علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشن پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ قومی ایکشن پلان کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہو گا اور ساتھ ہی پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کے مقاصد اور حکمتِ عملی کا بھی ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ