پاکستان میں داعش خراسان کا بڑھتا ہوا خطرہ

داعش خراسان پاکستان پر توجہ مرکوز کرکے ایک پروپیگینڈا مہم چلا رہی ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے انفوگرافکس، رپورٹس، آڈیو اور ویڈیو پیغامات شائع کرنے کے علاوہ ایک اردو زبان کا ماہانہ میگزین ’یلغار‘ اور انگریزی میگزین ’وائس آف خراسان‘ کا آغاز بھی کیا ہے۔

سکیورٹی اہلکار  چار  مارچ 2022 کو پشاور کی ایک مسجد میں بم دھماکے  کے مقام کے قریب تعینات ہیں۔ اس دھماکے میں 60 سے زیادہ اموات  اور متعدد  افراد زخمی ہوئے تھے۔ حملے  کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

داعش خراسان نے گذشتہ دو ہفتوں میں پشاور اور بلوچستان کے شہر سبی میں دو ہائی پروفائل خودکش حملے کیے ہیں جو پاکستان میں اس دہشت گرد گروہ کی ممکنہ بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ان دو خودکش حملوں سے پہلے داعش خراسان شہر پشاور اور انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں چھوٹے درجے کے حملوں میں ملوث رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے علاوہ داعش کی بڑھتی ہوئی آپریشنل صلاحیتیں بھی پاکستان کے اندرونی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

داعش خراسان بنیادی طور پر پاکستان کے قبائلی اضلاع باجوڑ اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے دو سابق دھڑوں کے علاوہ طالبان اور وسطی ایشیائی عسکریت پسندوں کے منحرف عناصر پر مشتمل ہے۔ یہ تنظیم 2015 کے اوائل میں سامنے آئی اور اس نے داعش کے اس وقت کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے وفاداری کا حلف لیا۔

حال ہی میں داعش کے سابق سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کے قتل کے بعد اس تنظیم نے داعش کے نئے سربراہ ابو الحسن الہاشمی القریشی کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کی ہے۔

داعش خراسان اپنے قیام سے لے کر آج تک کئی اتار چڑھاؤ سے گزری ہے۔ اس دوران اس نے اپنے سرکردہ رہنماؤں کو کھونے اور مشرقی افغانستان میں اپنے زیرِ قبضہ علاقے چھن جانے کے علاوہ اپنے کارندوں کی گرفتاریاں بھی دیکھیں، تاہم اس عسکریت پسند گروپ نے ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زبردست لچک اور تخلیقِ نو کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد داعش خراسان کے خلاف طالبان کی کارروائیوں نے اس گروہ کی سرگرمیوں کا رخ پاکستان کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ ماضی میں داعش خراسان نے پاکستان میں، خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں کئی ہائی پروفائل دہشت گرد حملے کیے ہیں۔

افغانستان سے گذشتہ سال امریکی انخلا کے دوران قندھار اور پل چرخی کی جیلوں سے فرار ہونے والے قیدیوں نے داعش خراسان کی آپریشنل اور تنظیمی طاقت کو بڑھایا ہے۔ فی الحال داعش خراسان کے جنگجوؤں کی تعداد 2,200 سے 3,500 ہے جو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اس گروپ کا ایک غیر مرکزی تنظیمی ڈھانچہ ہے جو مختلف سیل بنا کر کام کرتا ہے۔

بنیادی طور پر گروپ کی توجہ پاکستان اور افغانستان میں مذہبی اقلیتوں، حریف عسکریت پسند گروپوں اور ریاستی حکام پر حملوں پر مرکوز ہے۔ اپنے نظریات کو مذہبی دلائل فراہم کرنے والے ایک عسکریت پسند گروپ کے طور پر داعش خراسان نام نہاد سنی خلافت کے ایک انتہا پسند ورژن کی حمایت کرتا ہے جس میں مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نیز داعش خراسان کی خود ساختہ خلافت کا ورژن بین الاقوامی سرحدوں اور قومی ریاستی نظام کو تسلیم نہیں کرتا۔

بہرصورت داعش خراسان نے لشکر جھنگوی، جند اللہ، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے منحرف دھڑوں جیسے شیعہ مخالف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ آپریشنل اتحاد بنا کر افغانستان اور پاکستان کے مسابقتی عسکری منظر نامے میں اپنے لیے ایک جگہ بنائی ہے۔

اگرچہ امریکی انخلا کے بعد طالبان داعش خراسان کے ساتھ سختی سے پیش آئے ہیں لیکن طالبان کی محدود انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں اور انٹیلی جنس کے خلا نے داعش کو دوبارہ منظم ہونے اور خود کو دوبارہ لانچ کرنے کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔

حال ہی میں داعش خراسان پاکستان پر توجہ مرکوز کرکے ایک پروپیگینڈا مہم چلا رہی ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے انفوگرافکس، رپورٹس، آڈیو اور ویڈیو پیغامات شائع کرنے کے علاوہ ایک اردو زبان کا ماہانہ میگزین ’یلغار‘ اور انگریزی میگزین ’وائس آف خراسان‘ کا آغاز بھی کیا ہے۔

داعش خراسان کا پاکستان کے خلاف حالیہ پروپیگنڈا ملک میں اس کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو منطقی بنانے پر مرکوز ہے۔ داعش خراسان کے پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو ٹی ٹی پی پر اس کی تنقید ہے۔

داعش نے ٹی ٹی پی کو بین الاقوامی عسکریت پسندی سے دور ہونے، مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر شیعہ برادری کے ساتھ نرم رویہ اپنانے اور پاکستان اور پشتون قبائلی علاقوں تک اپنی توجہ محدود کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ ذکر کرنا اہمیت کا حامل ہے کہ ماضی میں دونوں گروپ ایک دوسرے پر اعلانیہ تنقید یا پرتشدد جھڑپوں میں ملوث نہیں رہے۔ لہٰذا اب جب کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگینڈا جنگ میں مصروف ہیں، اس کا نتیجہ پرتشدد جھڑپوں کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے اور یہ سب کچھ پاکستان کی داخلی سلامتی پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔

دلیل کے طور پر، داعش خراسان نے پاکستان میں شیعہ مخالف عسکریت پسندی کی جگہ لینا شروع کر دی ہے جو اسے داخلی سلامتی کے لیے ایک طویل خطرہ بناتا ہے۔ پاکستان میں شیعہ مخالف عسکریت پسندی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغان جہاد سے پہلے کی ہے۔ لہٰذا اگر یہ گروپ شیعہ مخالف عسکریت پسندی کے لیے خود کو کھڑا کر رہا ہے تو پاکستانی ریاست کو اس کی کارروائیوں پر گہری نگاہ رکھنی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید برآں ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا، لیوا الزینبیون کی موجودگی بھی داعش خراسان کی توجہ کا مرکز بنے گی۔ اس لیے داعش خراسان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ ممکنہ دشمنی کے علاوہ، لیوا الزینبیون کے ساتھ اس کا جھگڑا بھی اتنا ہی ممکن ہے۔

لہٰذا اگر پاکستان شیعہ کمیونٹی کو داعش خراسان کے ممکنہ حملوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے، جیسا کہ پشاور خودکش بم دھماکے میں دیکھا گیا تھا تو لیوا الزینبیون جیسے گروہ شیعہ تحفظ کے نام پر آگے آسکتے ہیں اور ملک میں فرقہ وارانہ عسکریت پسندی اور دشمنی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔

پچھلے سال، قندوز میں شیعہ امام بارگاہ پر خودکش بم حملے کے دوران داعش خراسان نے محمد ایغوری نامی چینی ایغور عسکریت پسند کو استعمال کیا۔ داعش خراسان کی طرف سے یہ اقدام طالبان کی طرف سے بیجنگ کے اصرار پر چین کی سرحد سے متصل صوبہ بدخشاں سے ترکستان اسلامک پارٹی سے وابستہ اویغوروں کو افغانستان کے دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا۔

اس اقدام کے بعد، قندوز مسجد بم دھماکے میں ایغور خودکش بمبار کو ظاہر کرنے کی داعش خراسان کی صلاحیت طالبان اور چین دونوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ دہشت گرد گروہ اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے اویغوروں کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ داعش خراسان اپنے آن لائن پروپیگنڈے میں چین پر شدید تنقید میں بھی مصروف ہے۔ داعش خراسان ناراض اویغور عسکریت پسندوں کو چین پاکستان اقتصادی راہداری سمیت چینی مفادات اور پاکستان میں شہریوں پر حملے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔

لہٰذا پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کے منظر نامے میں داخلی اور خارجی خطرات کا گہرائی سے جائزہ لے کر اپنی موجودہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے اور اس کے مطابق اپنے ردعمل کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہی افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے کسی بھی بیرونی طاقت کے ساتھ شامل ہونے میں طالبان کی ہچکچاہٹ، داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے علاقائی میکانزم بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ