حیدرآباد دکن کی گرجا گھر نما مسجد

اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے، جسے ہسپانوی فن تعمیر کا نمونہ کہا جاتا ہے۔

بھارت کا جنوبی شہر حیدر آباد دکن قدیم و جدید اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار مساجد کا مرکز تو ہے مگر یہاں بیگم پیٹ کے علاقے کی جامع مسجد اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے خاصی منفرد ہے۔

سپینش نامی یہ سو سال پرانی مسجد اپنے مغربی طرز تعمیر کی وجہ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

اس جامع مسجد کو مسجد اقبال الدولہ بھی کہا جاتا ہے۔ منفرد انداز کی اس عمارت میں یورپ کے گرجا گھروں اور عربی مساجد کے فن تعمیر کا ایک انوکھا امتزاج پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ مسجد ظاہری طور پر گرجا گھر جیسی لگتی ہے اور اسے ہسپانوی فن تعمیر کا نمونہ کہا جاتا ہے۔

سنہ 1905 میں اس وقت کے وزیراعظم و پانچویں پائیگاہ امیر نواب محمد فضل الدین خان سر وقار الامرا نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔

نواب فیض خان، وقار العمر بہادر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کے پردادا نواب فضل الدین خان سر وقار الامرا نے 130 برس قبل اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔

’نواب فضل الدین خان دورہ سپین میں تاریخی مسجدِ قرطبہ سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے واپسی پر ہسپانوی طرز تعمیر پر مسجد تعمیر کرنے کا آغاز کیا تھا۔

مسجد کی تعمیر کا کام چھ سال میں‌ مکمل ہوا۔ تقریباً 1905 یا 1906 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ مسجد کا کل رقبہ ایک ایکڑ سے زیادہ ہے جبکہ مسجد کے اندر 500 اور صحن میں مزید ایک ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔

فیض خان بتاتے ہیں کہ ’یہ مسجد اپنے منفرد طرزِ تعمیر اور نقاشی کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ دیگر مساجد کی طرح مینار اور گنبد نہیں ہیں بلکہ اس کی جگہ گرجا گھر جیسے مینار ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مسجد کے اندر شمال افریقی تعمیراتی فن کے ساتھ ساتھ ہسپانوی اور مراکشی فن تعمیر کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ فرانسیسی طرز پر کھڑکیاں بنائی گئی ہیں اور اس کے اوپر بیضوی نوک دار محراب ہیں جنہیں مسجد قرطبہ کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں پر خط کوفی کے انداز میں قرانی آیات لکھی گئی ہیں۔‘

نواب فیض خان کے مطابق: ’سلجوق انداز میں خطاطی کی گئی ہے اور عرب کی روایتی خطاطی سے بالکل مختلف ہے۔ پڑھنے میں بھی مشکل ہے یعنی عام طور پر اسے آسانی سے پڑھا نہیں جاسکتا۔ اس طرح کی خطاطی شمالی افریقہ میں نظر آتی ہے۔‘

گذشتہ کئی برسوں سے اس مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے فیض خان کہتے ہیں کہ ’بھارت کے مختلف شہروں میں عالیشان مساجد ہیں لیکن یہ حیدرآباد کی خوبصورت اور شاہکار مسجد ہے۔‘

فیض خان کے بقول ’دنیا بھر سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں اور اس کے انتہائی نفیس اور دیدہ زیب کام کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یونیسکو کی ایک ٹیم بھی اس مسجد کو دیکھنے آئی تھی۔ سپین میں جب اس مسجد کے بارے میں پتہ چلا تو وہاں سے ایک وفد اسے دیکھنے آیا تھا جنہوں نے مسجد کی عکس بندی کی، اس کے علاوہ ترکی، یورپ اور لندن سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس مسجد کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے اسے معتدد ایواڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں 2010 میں ملنے والا ہریٹیج اینٹیک ایواڈ بھی شامل ہے۔‘

فیض خان نے بتایا کہ چار برس قبل ’کم ٹو آور موسک‘ کے تحت ایک مہم شروع کی گئی تھی جس کے ذریعے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ آکر اس مسجد کو دیکھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی آکر دیکھے کہ یہ مسجد کتنی خوبصورت ہے اور یہاں کیا ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا