میانمار: کرپشن کے الزام میں آنگ سان سوچی کو پانچ سال قید

آنگ سان سوچی کے حامی اور آزاد قانونی ماہرین 76 سالہ رہنما کو سیاست میں فعال کردار کی طرف لوٹنے سے روکنے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو ایک غیر منصفانہ اقدام سمجھتے ہیں۔

پانچ نومبر 2015 کو لی گئی اس فائل تصویر میں، اپوزیشن لیڈر اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آنگ سان سوچی ینگون میں اپنے رہائشی احاطے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد رخصت ہوتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

میانمار کی عدالت نے جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کا مجرم قرار دیتے ہوئے آج پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فوج کے زیر اقتدار ملک میں نوبیل انعام یافتہ رہنما کے خلاف بدعنوانی کے کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔

آنگ سان سوچی جنہیں گذشتہ سال اقتدار پر قابض فوج نے معزول کر دیا گیا تھا، نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ساتھی سیاست دان سے لاکھوں ڈالر اور سونے کی صورت میں رشوت قبول کی تھی۔

آنگ سان سوچی کے حامی اور آزاد قانونی ماہرین 76 سالہ رہنما کو سیاست میں فعال کردار کی طرف لوٹنے سے روکنے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو ایک غیر منصفانہ اقدام سمجھتے ہیں۔

وہ پہلے ہی دیگر مقدمات میں چھ سال قید کی سزا کاٹ چکی ہیں اور انہیں بدعنوانی کے مزید 10 الزامات کا سامنا ہے۔

انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت ایک مقدمے میں زیادہ سے زیادہ 15 سال قید اور جرمانے کی سزا ہے اس طرح دیگر مقدمات میں سوچی کو مجموعی طور پر 100 سال سے زیادہ قید کی سزائیں ہو سکتی ہیں۔

بدھ کے فیصلے کے وقت میڈیا، سفارت کاروں اور حامیوں کو عدالت  تک رسائی نہیں دی گئی اور ان کے وکلا کو پریس سے بات کرنے سے بھی روک دیا گیا۔

اے ایف پی کے مطابق سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے 2020 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی لیکن گذشتہ سال یکم فروری  کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس کے بعد سوچی اور ان کی پارٹی اور حکومت کے کئی سینیئر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے اس لیے کارروائی کی کیونکہ ملک میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی ہوئی تھی لیکن آزاد انتخابی مبصرین کو کوئی بڑی بے ضابطگی کا ثبوت نہیں ملا۔

سوچی کو حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے اور تب سے انہیں عوامی طور نظر آنے یا بولنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

تاہم کیس میں گذشتہ ہفتے کی آخری سماعت کے دوران انہوں نے پہلی بار اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ ’متحد رہیں‘۔

اس سے قبل مخلف کے مقدمات میں سوچی کو غیر قانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے، کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی اور بغاوت کے جرم میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

تازہ ترین مقدمے میں ان پر ینگون کے سابق وزیر اعلیٰ اور ان کی سیاسی جماعت کے ایک سینئر رکن فیو من تھین سے 2017 میں چھ لاکھ ڈالر اور سونے کی سات اینٹیں وصول کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا