پاکستان، مشرق وسطیٰ تعلقات اور شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب

نئے وزیر اعظم شہباز شریف کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنج ورثے میں ملے ہیں۔ ان ہی کلیدی بیرونی چیلنجز میں سے ایک مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو دوبارہ سے استوار کرنا ہو گا۔

سعودی شاہی محل کی جانب سے جاری 30 اپریل کی تصویر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وزیراعظم شہباز شریف کا جدہ میں استقبال کر رہے ہیں (اے ایف پی، سعودی شاہی محل)

شہباز شریف نے 11 اپریل کو پارلیمان سے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی برطرفی کے بعد پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔

نئے وزیر اعظم شہباز شریف کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنج ورثے میں ملے ہیں۔ ان ہی کلیدی بیرونی چیلنجز میں سے ایک مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو دوبارہ سے استوار کرنا ہو گا۔

عمران خان کے پونے چار سالہ دورِ حکومت میں پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کئی اتار چڑھاؤ سے گزرے جس سے غیریقینی صورت حال پیدا ہوئی اور قابل گریز تناؤ پیدا ہوا۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف 27 اپریل کو سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوئے جہاں انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اور خارجہ تعلقات کے ضمن میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب میں 27 لاکھ کے قریب پاکستانی مقیم ہیں جو غیرملکی زرِ مبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔

اس دورے میں پاکستان کو ایک اقتصادی پیکج اور موخر ادائیگیوں کی بنیاد پر تیل کی فراہمی کے حوالے سے بڑی پیش رفت متوقع ہے۔ اس اقتصادی امداد کے بدلے میں سعودی یہ توقع کریں گے کہ پاکستان ایران کی طرف محتاط رویہ اختیار کرے اور سعودی ​​مفادات کا تحفظ کرے۔

پاکستان کے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے ساتھ دیرینہ تزویراتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ یہ خطہ دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن کو ملازمت دیتا ہے اور غیرملکی ترسیلات کا اہم ذریعہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ فوجی تربیت اور مشترکہ مشقوں سے لے کر ہتھیاروں کی فراہمی تک کے اہم سکیورٹی معاہدے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے تحت مشرق وسطیٰ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہت سی جغرافیائی سیاسی اور تزویراتی وجوہات کی بنا پر بڑی تبدیلی آئی جیسے کہ مشرق وسطیٰ کا بھارت کی طرف متوجہ ہونا۔

اسی طرح فروری 2020 میں ریاض اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی کے آثار کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس نہ بلانے پر اس وقت نظر آنے لگے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی، ایران اور ملائیشیا کی مدد سے ردعمل میں مسلم ممالک کا نیا بلاک بنانے کی دھمکی دی تھی۔

اسی طرح ترکی اور ایران کی طرف عمران خان کے جھکاؤ نے بھی دوست ممالک کی قیادت کو ناراض کیا۔ دسمبر 2019 میں پاکستان بیرونی دباؤ پر آخری وقت میں کوالالمپور سربراہی کانفرنس سے دستبردار ہو گیا۔ 

عمران خان نے ہمیشہ ایران کے بارے میں نرم گوشہ رکھا۔ جولائی 2018 میں ان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف عمران خان کو تہران کے دورے پر آمادہ کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچے۔

2015 میں عمران خان امریکہ اور ایران کے مابین جوہری معاہدے یا مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے بہت کھلے حامی تھے۔ خان نے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی شہریوں پر امریکہ میں سفری پابندی عائد کرنے پر بھی کڑی تنقید کی تھی۔

اس پس منظر میں سعودی اور اماراتی رہنما شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کو پاکستان کے ساتھ دوبارہ منسلک ہونے کا ایک موقع سمجھتے ہیں۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ ریاض اور ابوظہبی نہ صرف شہباز شریف کو مبارک باد دینے والے پہلے ممالک میں شامل تھے بلکہ ان کے متعلقہ ایلچیوں نے بھی وزیراعظم آفس میں ان سے ابتدائی ملاقاتیں کیں۔

اس کے برعکس ایران نے ابھی تک شہباز شریف کو مبارک باد کا پیغام نہیں پہنچایا۔ یہ 2018 کے بالکل برعکس ہے جب سابق ایرانی وزیر خارجہ نے عمران خان تک پہنچنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا تھا۔

شریف خاندان سعودی شاہی خاندان کے بہت قریب رہا ہے۔ اکتوبر 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں فوجی بغاوت کی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو قید میں ڈالا تو سعودی شاہی خاندان نے شریف خاندان اور مشرف کے درمیان معاہدہ کروایا۔ اسی طرح شاہی خاندان نے اپنی 10 سالہ جلاوطنی کے دوران جدہ میں شریف خاندان کی میزبانی کی۔

اب جب کہ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف متوجہ ہو گا تو ایران کے ساتھ اس کے تعلقات تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی عبوری کابینہ میں تہران کے حمایت یافتہ ہزارہ شیعہ رہنماؤں کو شامل کرنے کے لیے طالبان کو قائل نہ کرنے پر ایران پہلے ہی پاکستان سے ناخوش ہے۔ طالبان نے اپنی کابینہ میں صرف ایک ہزارہ شیعہ رہنما کو شامل کیا ہے۔

گذشتہ ستمبر میں طالبان کی جانب سے اپنی کابینہ کے اعلان کے بعد تہران میں پاکستان مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔

شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات پروان چڑھیں گے اور دوطرفہ تعاون کے نئے دور میں داخل ہوں گے۔ باوجود اس کے کہ شہباز شریف مختصر عرصے کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں تاہم مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے ان کی خارجہ پالیسی پاکستان اور مذکورہ خطے کے تعلقات کے ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ