پاکستان سعودی عرب کے درمیان منفرد، گہری اور پائیدار شراکت

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ 1940 میں جس سال قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اس وقت کے ولی عہد سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کر کے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

 پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بہت گہرے اور پرانے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستانی صدر عارف علوی کے درمیان 18 فروری 2019 کو ملاقات (پی آئی ڈی/اےف ایف پی)  

مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان محبت میں گڑی ہیں اور اسی وجہ سے قیادت میں ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ ہیں۔

 یہ رشتہ گذشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کے شعبوں میں مستحکم ہوتا رہا ہے، اور اس کو پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی کرشماتی قیادت میں مزید فروغ ملے گا۔

شہباز شریف جلد ہی عمرہ ادا کرنے کے لیے مملکت کا دورہ کریں گے۔ اس موقعے پر سعودی قیادت سے ان کی ملاقات بھی متوقع ہے تاکہ برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

پاکستان میرا دوسرا گھر ہے۔ میں نے اپنے سفارتی کیریئر کا بہترین وقت 2001 سے 2009 تک تقریباً ایک دہائی تک اسلام آباد میں سفیر کی حیثیت سے گزارا۔

کچھ سالوں تک میں نے اس کی سفارتی کور کے ڈین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ میں تین بار پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وزیراعظم شریف کی انتظامی مہارت سے بخوبی واقف ہوں۔ اس دوران انہوں نے لاہور اور باقی صوبے کی شکل بدل کر رکھ دی۔ ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے تین بار وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور پاکستان کے پارلیمانی اداروں کو ترقی دینے اور اسے مسلم دنیا کی واحد جوہری ریاست بننے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان آج نازک موڑ پر ہے۔ بیرونی طور پر اسے امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ جبکہ مشرقی سرحد کے پار، بھارت کی ہندو قوم پرستی لہر سے کشمیری مسلمانوں کی مستقبل کو خطرہ ہے۔

اندرونی طور پر سنگین خراب معاشی حالات نہ صرف سیاسی عدم استحکام کا سبب ہیں بلکہ بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کی ملک کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف میں پاکستان کو تعمیری طور پر آگے لے جانے کی صلاحیت، ہمت اور ارادے موجود ہیں۔ مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اس مقصد کے لیے غیر متزلزل سعودی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔

ایک قابل فخر تاریخ

سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی معیشت، استحکام اور اس عوام کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک قابل فخر روایت ہے جو آزادی سے بہت پہلے کی بات ہے۔

 1940 میں جس سال قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اس وقت کے ولی عہد سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا اور مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا۔

 1943 میں جب بنگال میں قحط پڑا تو شاہ عبدالعزیز آل سعود نے قائد اعظم کی اپیل کے جواب میں بہت بڑا عطیہ دیا تھا۔ 1946 میں جب اصفہانی کی قیادت میں انڈین مسلم لیگ کے وفد نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کا دورہ کیا تو شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے ایک استقبالیے کا اہتمام کیا تاکہ وہ پاکستان کے مقصد کے لیے لابنگ کر سکیں۔

سعودی عرب اقوام متحدہ کے پہلے رکن ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ 1950 میں اس نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کیا۔ 1954 میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے پاکستان کے سابق دارالحکومت کراچی میں ایک ہاؤسنگ سکیم کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام ان کے نام پر سعود آباد رکھا گیا۔ 1960 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے 1965 کی پاک بھارت جنگ اور 1967 کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران ایک ساتھ کام کیا۔ 1969 میں اس وقت کے سعودی وزیر دفاع اور ہوا بازی شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے دو طرفہ دفاعی تعاون کے پروٹوکول کو حتمی شکل دینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔

پاک سعودی تعلقات کا ایک شاندار باب 1970 کی دہائی میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور وزیراعظم ذولفقارعلی بھٹو کی قیادت میں شروع ہوا۔ اس کی خاص بات 1974 میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا لاہور میں ہونے والا اسلامی سربراہی اجلاس تھا جس کی علامتی قدر دونوں ممالک کی اجتماعی یادداشت میں آج بھی زندہ ہے۔

پاکستانی عوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز سے محبت کرتے تھے۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی میں شارع فیصل سب ان کے نام پر ہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب نے پاکستانی افرادی قوت کے لیے اپنے دروازے کھول دیے اور بھارت کے جوہری عزائم کو ناکام بنانے کے لیے بھٹو حکومت کو مالی امداد فراہم کی۔

پاکستانی عوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز سے محبت کرتے تھے۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی میں شارع فیصل سب ان کے نام پر ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان کمیونسٹ مخالف سرد جنگ اتحادوں کے سرکردہ ارکان تھے جن میں سینٹو اور سیٹو شامل تھے۔ چنانچہ 1980 کی دہائی میں انہوں نے افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف بین الاقوامی جنگ کی حمایت کے لیے ہاتھ ملایا جس نے بالآخر دنیا کو کمیونزم کی لعنت سے نجات دلائی۔ 1982 میں انہوں نے دو طرفہ سلامتی تعاون کا معاہدہ بھی مکمل کیا جس کے تحت پاکستان سعودی عرب کی فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیتوں میں مدد کرتا ہے۔

1989 میں جب کویت پر عراقی حملے سے مملکت کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان نے سعودی سرحدی علاقوں میں دفاع کی پہلی لائن کے طور پر کام کرنے کے لیے فوجی ڈویژن بھیج کر بین الاقوامی اتحاد میں حصہ لیا۔

1990 کی دہائی میں جب افغان مجاہدین کے دھڑے آپس میں لڑ رہے تھے تو دونوں ممالک بین الاقوامی عالمی امن کوششوں میں سب سے آگے تھے۔ 1997 میں پاکستان نے اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر او آئی سی کی غیر معمولی اسلامی سربراہی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس موقعے پر اس وقت کے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔

1998 کے جوہری تجربات کے بعد جب پاکستان بھاری مغربی پابندیوں کی زد میں آیا تو مملکت نے ایک سال تک موخر ادائیگی پر پاکستان کو تیل فراہم کیا جن میں سے بیشتر کو بعد میں گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ہنگامہ خیز دور میں پاکستان میں سعودی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے باعث مجھے دہشت گردی کی سنگینی اچھی طرح یاد ہے جس کا سامنا 11 ستمبر کے بعد ہمارے دونوں ممالک کو کرنا پڑا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور میں ہم نے مل کر اس خطرے کا سامنا کیا تھا۔ میں نے اپنی قیادت کی ہدایات اور رہنمائی سے پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سویلین اور فوجی قیادت کے ساتھ قریبی بات چیت برقرار رکھی۔

 آزاد جموں و کشمیر میں جب تباہ کن زلزلہ آیا تو سعودی عرب پہلا ملک تھا جس نے اس کے متاثرین کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے فضائی راہداری قائم کی تھی، پیشہ ور سعودی ڈاکٹرز دو جدید ترین مکمل فیلڈ اسپتال چلاتے تھے۔ او آئی سی کے ذریعے ہم نے مل کر اس قدرتی آفت سے نمٹا اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارموں پر اسلامی امن کے مقصد کی حمایت کی۔

ایک اہم موڑ

ایک دہائی بعد جنوری 2019 میں میں لبنان میں سفارتی فرائض انجام دینے اور سفارتی کیریئر سے سبکدوش ہونے کے بعد اسلام آباد واپس آیا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی کی لعنت کو کامیابی سے شکست دی ہے۔

دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ بات چیت سے انکشاف ہوا کہ پاکستانی عوام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت سعودی جدت کی مہم کے متعلق پرجوش تھے۔

 ایک ماہ بعد فروری 2019 میں نوجوان سعودی رہنما پاکستان کے ساتھ بڑی تبدیلی کا اعلان کرنے اسلام آباد پہنچے۔

اس سے چند ماہ قبل نومبر 2018 میں ولی عہد نے پاکستان کے لیے 6.2 ارب ڈالر مالیت کے ہنگامی اقتصادی امدادی پیکج پر دستخط کیے تھے جس میں اگلے تین سال کے لیے سالانہ بنیادوں پر تین ارب ڈالر کا قرض اور 3.2 ارب ڈالر کا تیل شامل ہے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو روکا جا سکے۔

متحدہ عرب امارات نے بھی اسی طرح کے اقتصادی تعاون کے پیکیج کا اعلان کیا۔ یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے موجودہ چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کی منظوری سے کئی ماہ پہلے کی بات ہے۔

سعودی قیادت نے ہمیشہ پاکستانی عوام کے اپنے رہنماؤں، سویلین یا فوج کے انتخاب کے حق کا احترام کیا ہے۔

اس نے ہمیشہ ان کے ساتھ احترام اور وقار کے ساتھ ہے۔ گذشتہ حکومت کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت سب سے پہلے پاکستان کی مدد کے لیے آئی اور اس کے مستقبل میں بھی سرمایہ کاری کی۔

پاکستان میں 20 ارب ڈالر مالیت کی سب سے بڑی سعودی سرمایہ کاری کے سودوں کی تکمیل شائد ولی عہد کے دورے کا سب سے اہم فائدہ تھا۔ جس میں اسٹریٹجک بندرگاہ گوادر شہر میں 10 ارب ڈالر کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل ہے۔

ولی عہد نے پر مسرت انداز میں عمران خان سے کہا کہ ’میں سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں۔‘ اسی سال کے آخر میں انہوں نے نیویارک جانے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے سابق وزیراعظم کو اپنے ذاتی طیارے کی پیشکش کی۔

1998 کے جوہری تجربات کے بعد جب پاکستان بھاری مغربی پابندیوں کی زد میں آیا تو مملکت نے ایک سال تک موخر ادائیگی پر پاکستان کو تیل فراہم کیا جن میں سے بیشتر کو بعد میں گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔

منطقی طور پر اگلا قدم یہ ہوتا کہ پاکستان میں سعودی اقتصادی منصوبوں کے لیے مشترکہ طور پر ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا جاتا۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی منفرد حیثیت کی مخالف بین الاقوامی قوتوں نے سعودی پاک تعلقات میں جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس میں ابھرتی ہوئی منتقلی کو تہہ و بالا کرنے کی سازش کی۔

 اس کا پس منظر واضح تھا کہ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور سعودی عرب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شرکت کے ذریعے اپنے عالمی اقتصادی روابط کو متنوع بنا رہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو سعودی آرامکو آئل ریفائنری کی مجوزہ جگہ گوادر پر ختم ہوتا ہے۔

یہ سازش اس وقت عیاں ہوئی جب 57 مسلم ممالک کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی حیثیت کو کمزور کرنے اور کشمیری مسلمانوں کے حق خودارادیت کے علمبردار کے طور پر اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے ایک حریف مسلم بلاک بنانے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔

خوش قسمتی سے سعودی پاک تعلقات میں فطری لچک سے اس سازش کو شکست ہوئی۔

گذشتہ دو سالوں میں یہ تعلقات ایک بار پھر پٹری پر آ گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر مالیت کا مالی امدادی پیکیج ملا۔

آگے کا راستہ

یقیناً وزیراعظم شہباز شریف کی فوری ترجیح اپنے ملک میں بے معاشی بحران پر قابو پانا ہے جس کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اضافی سعودی امداد لینا چاہیں گے۔

مجھے کوئی وہم نہیں ہے کہ سعودی قیادت پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔ اس سے آئندہ عام انتخابات سے قبل مخلوط حکومت کے لیے مستحکم سیاسی ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جو پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

سعودی معیشت کے جاری تنوع میں پاکستان کی ہنرمند افرادی قوت کے لیے آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی خدمات کے شعبوں میں بے پناہ مواقع حاصل ہیں۔

 مملکت میں 20 لاکھ سے زائد پاکستانی کارکن رہتے ہیں اور یہ پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا واحد سب سے بڑا ذریعہ ہے (اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے دوران 4.4 ارب ڈالر)۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر ہنرمند یا نیم ہنر مند مزدوروں کے زمرے میں آتے ہیں۔

میں موجودہ حکومت کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ہنرمند افرادی قوت کی تربیت کے لیے پیشہ ورانہ ادارے بنانے پر توجہ مرکوز کرے تاکہ پاکستان تیزی سے مسابقتی سعودی لیبر مارکیٹ میں کامیاب ہو سکے۔

سعودی وژن 2030 کا مقصد سعودی عرب کو عالمی اقتصادی مرکز بنانا ہے جس میں 500 ارب ڈالر کے نیوم شہر جیسے گیگا ترقیاتی منصوبے ہوں گے۔ پاکستان کے پاس سعودی عرب کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے کافی ہنرمند نوجوان ہیں اور اس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں اضافے کے ذریعے وہ اپنے کرنسی کے ذخائر کو بھی بڑھا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں پہلا قدم پاکستانی افرادی قوت کی بھرتی اور ہنرمندی کی تصدیق کے متعلق دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے جس سے مملکت میں متنوع پیشوں کے لیے ہنرمند اور مصدقہ کارکنوں کی برآمد کےعمل کو ہموار کیا جائے گا اور ان کے مناسب حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

اس کے لیے پاکستان کا نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن اور سعودی حکومت کا ذیلی ادارہ تاکامول مشترکہ طور پر کام کریں گے۔

اس سے متوقع پاکستانی افرادی قوت سعودی ترقیاتی شعبے میں کامیاب بھرتی کے لیے بھارتی اور دیگر غیر ملکی امیدواروں کے ساتھ مقابلہ کر سکے گی۔

سرمایہ کاری اور تجارت اقتصادی تعاون کے دو دیگر اہم شعبے ہیں جہاں دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو متعلقہ سرکاری وزارتوں کی مدد سے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان میں ریفائنری، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس اور کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں کی ترقی کے لیے 20 ارب ڈالر خرچ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن پاکستانی معیشت کے دیگر شعبوں میں سعودی نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے۔

سیالکوٹ شہرعالمی سطح پر کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے اور یہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی جگہ ہو گی۔ اس مقصد کے لیے کراچی اور فیصل آباد میں صنعتی زونز کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سے طے شدہ ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل منصوبے سعودی سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کو سی پیک کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔

اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ متعدد خصوصی اقتصادی زونز کی منصوبہ بندی بھی، جو سنکیانگ سے شروع ہوتی اور گوادر پر ختم ہوتی ہے، سعودی نجی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہے۔

اس لیے دونوں ممالک میں چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی سرمایہ کاری کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری قانونی اصلاحات کرکے نجی سعودی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان کے معروف کاروباری خاندانوں کے لیے بھی سعودی عرب میں ریئل اسٹیٹ، سیاحت اور خدمات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی زبردست گنجائش ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے زبردست شہری ترقی کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیرون ملک تک اپنا دائرہ کار بڑھایا جائے جس کے لیے سعودی عرب سب سے زیادہ محفوظ ماحول فراہم کرتا ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور ثقافتی طور پر اتنے قریب ہونے کے باوجود بدقسمتی سے دو طرفہ تجارت انتہائی کم ہے۔

فی الحال یہ تخمینہ تین ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے، آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کے لیے مذاکراتی عمل جلل مکمل کرکے دو طرفہ تجارت کو وسعت دینی ہوگی۔

 ایف ٹی اے پر بات چیت2018 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں جانب سے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں دورے کیے ہیں۔

تاجروں اور کاروباری افراد کے درمیان ملاقاتوں کے لیے باضابطہ سپانسرشپ کی فوری ضرورت ہے تاکہ اضافی شعبوں کی نشاندہی کی جا سکے جہاں ہر فریق کو تقابلی فائدہ حاصل ہو اور قابل تجارت مصنوعات تلاش کی جائیں۔

اقتصادی تعاون بھی اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح سیکورٹی ڈومین میں مستقل تعلقات ہیں۔

حرمین شریفین کے تقدس کا دفاع کرنے سے لے کر دہشت گردی کے ناسور کو شکست دینے تک پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کا ایک اہم شراکت دار اور ایک بڑا اہم مسلم ملک رہا ہے۔

 دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے فوجی تربیت اور مشاورتی شعبوں میں غیر معمولی قریبی تعلقات ہیں۔ سعودی اور پاکستان کے فوجی رہنماؤں اور سیکورٹی حکام کے باہمی دورے ایک معمول ہیں۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوا کئی بار مملکت کا سفر کر چکے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد اور ریاض میں نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے بات چیت کی ہے۔ ان کے پیشرو جنرل راحیل شریف نے ریاض میں واقع 41 رکنی اسلامی فوجی انسداد دہشت گردی اتحاد کی کمان سنبھالی ہے جو ان کے قریبی فوجی اشتراک کی عکاسی کرتا ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان متعدد علاقائی اور عالمی قابل تشویش امور پر بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ افغانستان اور کشمیر میں امن و استحکام کے حصول اور مسلم دنیا کے لیے اسلاموفوبیا جیسے گہری تشویش کے باعث عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔

 سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان حال ہی میں دو بار اسلام آباد آچکے ہیں: گذشتہ دسمبر میں انہوں نے افغانستان میں انسانی بحران کے ردعمل میں منعقدہ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے کامیاب خصوصی اجلاس میں شرکت کی تھی۔

اس کے بعد گزشتہ ماہ انہوں نےوزرائے خارجہ کی کونسل کے 48 ویں اجلاس میں شرکت کی تاکہ مسلم دنیا کو درپیش اہم چیلنجوں بشمول مسئلہ کشمیر سے نمٹا جا سکے۔ سٹریٹجک معاملات میں سعودی پاک ہم آہنگی کو مزید فروغ دینا ہو گا۔

میں اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ہمارے تاریخی تعلقات بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور اس کا موجودہ ارتقا مستقبل کی مضبوط ترقی کے وسیع راستے کھول رہا ہے۔

دونوں ممالک کو دوستی کا ایک نادر جذبہ اکٹھا کرتا ہے جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج اور عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے دوران سیاسی، سلامتی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں باہمی تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

 مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برادرانہ رشتہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں نئی بلندیوں کو چھولے گا۔

اللہ تعالیٰ سعودی عرب اور پاکستان کو روشن مستقبل کے لیے ان کے مشترکہ مقصد میں برکت دے۔


مصنف کے بارے میں

ڈاکٹر علی عواد العسیری نے 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سعودی پاک تعلقات کو فروغ دینے میں خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان حاصل کیا۔ انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہے اور ’دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار‘ نامی کتاب لکھی ہے۔

وہ رصانہ، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانی سٹڈیز، ریاض میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر