’پاکستان روس کے لیے ایک اہم ملک ہے‘

تھنک ٹینک سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹیجک سٹڈیز کے بانی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی قربتوں کو مثبت سمت بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں حالیہ برسوں میں دونوں طرف برف پگھلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اب پاکستان اور روس کے تعلقات میں نرمی اور گرمی پیدا ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔

وسط ایشیائی ریاست کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں جون کے وسط میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے آنے والی خبروں اور خصوصاً تصاویر نے پاکستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان غیر رسمی ملاقات کو پاکستانی میڈیا نے خوب کوریج دی اور اسے پاکستان اور روس کے درمیان فاصلوں کی کمی کی جانب اہم قدم قرار دیا۔

اجلاس میں عمران خان اور پوتن کے ساتھ ساتھ بیٹھنے، اس دوران دونوں کی کھسر پھسر اور ایس سی او سربراہان کے ساتھ بننے والی الوداعی تصویر میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو دونوں ملکوں کے بہتر ہوتے تعلقات کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر ان ملاقاتوں اور تصاویر کی دھوم رہی اور وہاں عمران خان اور ولادی میر پوتن کی شخصیات اور پالیسیوں میں پائی جانے والی مماثلتوں کو بھی زیر بحث لایا گیا۔

اس دوران یہ سوال بھی اٹھا کہ اسلام آباد اور ماسکو کے قریب آنے کے کتنے امکانات ہیں اور کیا حالیہ دنوں میں ایسا کچھ ہوا ہے یا نہیں؟ اور ایسا ہونے یا نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آتے ہیں۔ کبھی دونوں ملک اتنے قریب آئے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں سٹیل مل قائم کرنے میں بھر پور مالی اور تکنیکی مددفراہم کی، جبکہ دوسری طرف افغانستان جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔  

تاہم بعض ماہرین کے خیال میں حالیہ برسوں میں دونوں طرف برف پگھلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اب پاکستان اور روس کے تعلقات میں نرمی اور گرمی پیدا ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔

تھنک ٹینک سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹیجک سٹڈیز کے بانی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی قربتوں کو مثبت سمت بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’روس کی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، اور یہ تبدیلی دراصل صدر پوتن کی سوچ میں تبدیلی کی مرہون منت ہے۔‘

 صدر پوتن اب دنیا کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ اور اس کی واحد وجہ پاکستان کی جغرافیائی (جیو پولیٹیکل) اہمیت ہے۔

علی سرور نقوی جو دو ماہ قبل ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے روس میں تھے، کہتے ہیں: ’میں نے وہاں ایک تبدیلی دیکھی ہے۔ اب وہاں پاکستان کے لیے خیر سگالی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔‘

 تھنک ٹینک سٹریٹیجک ویژن انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حارث بلال ملک انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز میں لکھتے ہیں: ’سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ خطے میں جیو سٹریٹیجک رجحانات نے پاکستان اور روس کے لیے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔‘

ان کے خیال میں پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع وہ عنصر ہے جو موجودہ عالمی ماحول میں اسے اہم بناتا ہے۔

تاہم بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات کو غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’میڈیا اور بعض حکومتی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ دونوں ممالک قریب آرہے ہیں۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بشکیک میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر ولادی میر پوتن کے درمیان ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی۔جس کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہو سکتی۔‘

جبکہ دوسری طرف صدر پوتن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ رسمی بات چیت کی اور دونوں ملکوں کے تعلقات پر بحث کی۔

حالیہ مہینوں میں خصوصا اور گذشتہ پانچ سال کے دوران عموما پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 66 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سال کے آخر تک اس کے بڑھ کر ساڑھے سات سو سے آٹھ سو ملین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

چین کی رضا مندی کے بعد روس کے سی پیک میں شمولیت کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جس سے روس کو معاشی طور پر کافی فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح روس کراچی سے لاہور کے درمیان دس ارب ڈالر کے خرچ سے ڈالی جانے والی گیس پائپ لائن کے بچھانے میں پاکستان کو مالی مدد فراہم کرے گا۔

لاہور یونی ورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے استاد ڈاکٹر رسول بخش رئیس ان اقدامات کو اتنا اہم نہیں سمجھتے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری تو آئی ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ اسلام آباد اور ماسکو قریب آ رہے ہیں۔ ایک تو روس معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اور دوسرا افغانستان کے تناظر میں پاکستان اہم ملک ہے۔اور روس اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق: ’پاکستان بھی افغانستان کے سلسلے میں روس کے اثر رسوخ کو استعمال کرنا اور اس سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔‘

عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر اتنا مضبوط نہیں ہے کہ روس کو اس میں کوئی دلچسپی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں ملکوں کے تعلقات صرف اور صرف معاشی مفادات کی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں۔اور روس اور پاکستان کے درمیان ایسے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔

صحافی ناصر محمد ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’آج جنہیں ملکوں کے درمیان گہرے یا دوستانہ یا خصوصی تعلقات کہتے ہیں۔ وہ دراصل ایک دوسرے پر اقتصادی اور ٹیکنالوجیکل انحصار کے نتیجے میں بنتے ہیں۔اور اسی سے معاشی سفارتکاری کی اصطلاح نے جنم لیا ہے۔ ’روس پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان جیسے ملکوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا جو دہشت گردی اور کرپشن جیسے عذابوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور روس کی برآمدات کے لیے کوئی بڑی منڈیاں بن سکتے ہیں اور نہ ہی جیو سٹریٹیجک اثر رسوخ کے حوالے سے اسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔‘

علی سرور نقوی ان خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پاکستان اپنے خطے کا بہت اہم ملک ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہے اور افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت پاکستان کی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’روس پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ پوتن امریکہ کو کاؤنٹر کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کی پالیسیاں زیادہ جارحانہ ہوتی جائیں گی۔

عبدالباسط کا کہنا تھا کہ روس بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کسی صورت خراب نہیں کرے گا۔ جبکہ دہلی امریکہ سے بھی راہ و رسم بڑھا رہا ہے۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں: ’پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی بہت بڑی انقلابی تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ہمارا مغرب کے ساتھ الحاق برقرار رہے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان