کیا پاکستان کسی اور شاری بلوچ کا متحمل ہو سکتا ہے؟

آئندہ کسی ممکنہ حملے سے بچنے کے لیے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کو ’آہنی ہاتھوں‘ سے نمٹنے کے بجائے بلوچستان کے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرے۔

شاری بلوچ عرف برمش ایم فل کی طالبہ اور دو بچوں کی ماں تھیں (بی ایل اے)

ہم نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بچہ ماں سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ ماں اسے اپنا دودھ پلاتی ہے، پھر یہ بھی سنا کہ بچہ ماں سے اس لیے بھی محبت کرتا ہے کہ وہ نو ماہ اسے اپنی کوکھ میں پالتی ہے۔

ابھی ہم اس محبت کی سحر میں گرفتار تھے کہ اپنے اردگرد کچھ ایسی مائیں بھی دیکھیں جو نہ بچے کو نو ماہ رحم مادر میں رکھ سکتی ہیں اور نہ ہی اسے اپنا دودھ پلانے کے قابل ہوتی ہیں، لیکن بچہ اس کے باوجود لے پالک اس کے پیار اور شفقت کو پہچانتا ہے کیونکہ وہ اس کی ضرورتوں کو سمجھتی ہے۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے یہاں ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اس ماں کے آنچل میں عدالت، پارلیمان انتظامیہ اور فوج شامل ہوتی ہیں۔ افسوس بلوچستان کے معاملے میں اس آنچل میں صرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔

بلوچستان میں مسلح جدوجہد اور مزاحمتی تحریکیں کوئی آج کی بات نہیں ہے بلوچستان میں باضابطہ فوجی آپریشن 1973 میں بھٹو دور حکومت میں ہوا جب بھٹو نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے بلوچستان کی منتخب صوبائی حکومت کو برطرف کیا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔

منتخب حکومت کی برطرفی کے خلاف ہونے والے احتجاج نے بلوچستان کی علیحدگی کے مطالبات کو جنم دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک بلوچستان کے حالات اور وفاق کے تعلقات انتہائی کمزوری کا شکار رہے ہیں۔

سردار عطااللہ مینگل ہوں، نواب اکبر بگٹی ہوں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مذاکرات کے حامی ڈاکٹر مالک بلوچ، سب ہمیشہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔ مذاکرات کے لیے کئی بار حامی بھرنے والے70 سالہ ضعیف نواب کو ملک کے لیے خطرہ جانتے ہوئے اس وقت کے فوجی آمر نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن کے دوران نشانہ بنا ڈالا اور بزورطاقت اور فوجی آپریشن کے ذریعے بلوچستان کی آواز دبانے کی کوشش کی جسے مسلح تنظیموں نے اعلان جنگ کے طور پر قبول کیا۔

 ان دنوں بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات دہرائی گئی کہ جس طرح پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش میں جو رویہ رکھا گیا اسی طرز کا کھیل بلوچستان میں بھی کھیلا جا رہا ہے پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع، گورنر اور وزیراعلیٰ رہنے والے سیاست دان کو غدار قرا ردینے کی ناکام کوشش کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وہی وقت تھا جب بلوچستان میں اپنے حقوق کی بحالی کے لیے سیاسی قوتیں اپنی آواز بلند کر رہی تھیں تو دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں نے بھی زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔

پرویز مشرف کے اس دور حکومت میں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس میں ایک خاص تعداد بلوچ طالب علموں کی تھی جنہیں اندرون اور بیرون بلوچستان سے لاپتہ کیا گیا اور اس طرح مسنگ پرسنز کے اجتماعی کیمپوں میں بیٹھے لوگوں اور ان تصاویر میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اسی دوران سردار اختر مینگل کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور بلوچستان حکومت میں کچھ ایسے نئے سیاسی چہرے نظر آئے جنہیں عوامی پذیرائی حاصل نہیں تھی.

بلوچستان میں جاری سورش اس وقت عالمی میڈیا کا مرکز بنی جب 2018 میں کراچی میں قائم چینی سفارت خانے پرحملہ کیا گیا جس کی ذمہ داری بلوچستان کی کالعدم تحریک بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔

دنیا میں کسی بھی خطے سے حاصل کیے گئے وسائل پر سب سے پہلا حق وہاں کے رہنے والوں کا ہوتا ہے لیکن بلوچستان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کے جائز حق سے محروم رکھنے کا سلسلہ جاری رہا، نتیجے کے طور پر مزاحمتی تحریکوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کے حملوں میں بھی شدت آتی گئی۔

ہم ماضی میں دیکھتے آئے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ طاقت اور غلط حکمت عملی سے لڑا گیا جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے۔ اس بےحسی میں ملک کی عدلیہ اور میڈیا نے بھی اپنا بھرپور کردارادا کیا۔ ملکی میڈیا بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کیے ہوئے ہے، جیسے بلوچستان کے مسائل ان کے آگے کوئی وقت ہی نہیں رکھتے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے مسائل پر لکھنے والا صحافی انتہائی محتاط ہو گیا اور بلوچستان سے صحافت تقریباً ختم ہو گئی۔ مقامی صحافی کو اپنے علاقائی مسائل کے لیے انتہائی محتاط ہونا پڑتا ہے یا پھر بلوچستان کے موضوعات پر لکھنے والے کو کسی انٹرنیشنل میڈیا کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔

ہماری عدالتیں ایسے کیسز کی فائلز سے بھری پڑی ہیں جہاں ان کے پیارے لاپتہ ہیں اور عدالتیں انہیں بازیاب کرانے میں مکمل طور پر ناکام نظرآتی ہیں۔

شاری بلوچ بھی اسی واقعے کی ایک کڑی ہے۔ جہاں کچھ لوگ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں وہیں کچھ اس کے واقعے کے ذمہ داروں کو متنبہ بھی کر رہے ہیں کہ اب بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو کس طرح حالات کو سدھار پائیں گے۔

اس واقعے کا جواب طاقت کا مظاہرہ اور جبری گمشدگیاں نہیں ہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں ریاست کی جانب سے بلوچستان کی سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کی راہ ہموار نہیں کی گئی تو خدشہ ہے کہ ایسے مزید واقعات مستقبل میں جنم لے سکتے ہیں۔

2018 کے چینی سفارت خانے پر حملے کے بعد بلوچستان بھر میں گرفتاریوں اور گمشدگیوں کا سلسلہ بڑھا دیا گیا تھا۔

اختر مینگل کے چھ نکات آج بھی کاغذات کی صورت موجود ہیں جس میں بلوچستان کی حق تلفی اور مسائل سے نمٹنے کے راز موجود ہیں۔ بال اب بھی ان کی کورٹ میں موجود ہے جنہیں ان معاملات کا حل تلاش کرنا ہے۔

شاری بلوچ خود کش حملہ ایک بار پھر بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں، خاص طور پر بلوچ طلبہ کے لیے مسائل کے انبار کھڑے کر دے گا اور وہ ترقی کی راہ میں مزید پیچھے دھکیل دیے جائیں گے۔

نفرتوں کے اس ماحول کو ختم کرنے کے لیے اور آئندہ کسی ممکنہ حملے سے بچنے کے لیے ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ معاملات کو ’آہنی ہاتھوں‘ سے نمٹنے کے بجائے بلوچستان کے مسائل اور بات چیت کے لیے اقدامات اٹھائے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ