برطانیہ کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا

اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریباً 150 فلسطینی ریاست کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔  

برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد یورپی ملک پرتگال نے بھی فلسطین کو باضابطہ طور پر بحیثیت خود مختار ریاست  تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پرتگالی وزیر خارجہ پاؤلو رینگل نے پیر کو شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے قبل نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ ’اس لیے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا ایک بنیادی، مستقل اور وسیع پیمانے پر متفقہ پالیسی کی تکمیل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پرتگال دو ریاستی حل کو منصفانہ اور دیرپا امن کا واحد راستہ قرار دیتا ہے، جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بقائے باہمی اور پرامن تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔‘

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے 1988 میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کیا تھا اور زیادہ تر عالمی جنوبی ملکوں نے اسے جلد ہی تسلیم کر لیا۔

اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریباً 150 نے فلسطینی ریاست کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔  

اسرائیل کا اہم اتحادی امریکہ طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے مقصد کی حمایت کرتا ہے لیکن واشنگٹن ایسا فلسطینیوں کے اسرائیل کے ساتھ دو ریاستی حل پر رضامندی کے بعد ہی کرنے کا حامی ہے۔

حالیہ ہفتوں تک بڑی یورپی طاقتیں امریکہ کے ساتھ اس پوزیشن میں شریک تھیں۔

تاہم 2014 کے بعد سے ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اب کہا ہے کہ کبھی بھی فلسطینی ریاست نہیں ہو گی۔

ریاست فلسطین کی نمائندگی کرنے والے وفد کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن ووٹنگ کا کوئی حق حاصل نہیں۔ چاہے کتنے ہی ملک فلسطین کی آزادی کو تسلیم کریں، اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہو گی، جہاں واشنگٹن کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔

اس سے قبل برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، جو دہائیوں پر محیط مغربی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی تصور کی جا رہی ہے اور جس پر اسرائیل نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

چار مغربی ممالک کے فیصلے نے، جو روایتی طور پر اسرائیل کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں، ان کو 140 سے زیادہ دیگر ممالک کے ساتھ جوڑ دیا، جو مقبوضہ علاقوں سے آزاد وطن کے قیام کے لیے فلسطینیوں کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں۔

 

برطانیہ اور کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے پہلے جی-سیون ممالک بن گئے ہیں۔ 

پرتگال نے اسی روز اعلان کیا تھا کہ وہ 21 ستمبر کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا۔

توقع ہے کہ فرانس اور دیگر ممالک پیر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اسی راہ پر چلیں گے۔

برطانوی وزیر اعظم کیر سٹارمر نے کہا برطانیہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک تاریخی تبدیلی کرتے ہوئے باضابطہ طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر رہا ہے۔

’آج، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید کو بحال کرنے اور دو ریاستی حل کے لیے، برطانیہ رسمی طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتا ہے۔‘

سٹارمر نے جولائی میں کہا تھا کہ ان کی لیبر حکومت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گی، جب تک کہ اسرائیل ’ٹھوس اقدامات‘‘نہ اٹھائے، جن میں غزہ میں فائر بندی، علاقے میں امداد کی فراہمی میں اضافہ اور مغربی کنارے کو ضم نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہیں۔

وہ بارہا یہ بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ حماس 2023 کے حملے کے دوران پکڑے گئے باقی قیدیوں کو رہا کرے، اور وہ فلسطینی جنگجوؤں پر نئی پابندیاں لگانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔

لیمّی نے اتوار کو بی بی سی کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی — جو مغربی کنارے کے بعض علاقوں میں سول انتظام سنبھالتی ہے — طویل عرصے سے اس اقدام کا مطالبہ کر رہی تھی ’اور میرا خیال ہے کہ یہ سب امید سے جڑا ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’کیا اس سے بچوں کو کھانا ملے گا؟ نہیں، یہ تو انسانی امداد پر منحصر ہے۔ کیا اس سے یرغمالیوں کی رہائی ہوگی؟ یہ تو جنگ بندی سے ممکن ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک کوشش ہے ’دو ریاستی حل کے لیے امید قائم رکھنے کی۔‘

’کینیڈا اسرائیل پر دباؤ بڑھانے والوں میں شامل ہو گیا‘

کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی کا کہنا تھا کہ ’ان کا ملک غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر بڑی مغربی اقوام کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔‘

کارنی نے ایکس پر لکھا ’کینیڈا ریاست فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاست فلسطین اور اسرائیل دونوں کے لیے پرامن مستقبل کے وعدے کے لیے اپنی شراکت داری کی پیشکش کرتا ہے۔‘

آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا آسٹریلیا ’فلسطین کی آزاد اور خودمختار ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔‘

البانیز نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ’ایسا کرنے سے آسٹریلیا فلسطینی عوام کی اپنی ایک ریاست کے لیے جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔‘

آسٹریلوی وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر بڑی مغربی اقوام کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔

’تسلیم کا آج کا عمل دو ریاستی حل کے لیے آسٹریلیا کی دیرینہ وابستگی کی عکاسی کرتا ہے، جو ہمیشہ اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے لیے پائیدار امن اور سلامتی کا واحد راستہ رہا ہے۔‘

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ فلسطینی عوام کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے جو دہائیوں سے اپنی ریاست کے خواب کے لیے کوشاں ہیں۔ 

اب تک طاقت ور مغربی ممالک اس موقف پر قائم تھے کہ فلسطینی ریاست کا قیام صرف اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدہ شدہ امن کا حصہ ہونا چاہیے۔

لیکن یہ اقدام ان ممالک کو امریکہ اور اسرائیل کے موقف کے خلاف لاکھڑا کرتا ہے۔

’دیرپا امن کی جانب ایک ضروری قدم‘

فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا خطے میں دیرپا امن کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمود عباس کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ’صدر نے برطانیہ کی جانب سے آزاد ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدام کو سراہا اور اس بات کی توثیق کی کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے مطابق منصفانہ اور دیرپا امن کے قیام کی سمت ایک اہم اور ضروری قدم ہے۔‘

’فلسطینی ریاست کا مطالبہ ہمارے وجود کو خطرہ’

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا۔

نتن یاہو نے کہا ’فلسطینی ریاست کا مطالبہ ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالے گا اور یہ دہشت گردی کے لیے ایک مضحکہ خیز انعام ہو گا۔‘

مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ

اسرائیل کے دو انتہائی دائیں بازو کے وزرا نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کیا ہے۔

قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گِویر نے ایک بیان میں کہا ’برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف سے فلسطینی ریاست کے تسلیم کا مطلب… فوری جوابی اقدامات کی ضرورت ہے: یہودیہ و شمیرون (جُوڈیا اور ساماریہ) میں فوری طور پر خودمختاری نافذ کرنا اور فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر تحلیل کرنا۔‘

انہوں نے کہا ’میں کابینہ کے آئندہ اجلاس میں خودمختاری کے نفاذ کی تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘

وزیر خزانہ بیزایلل سموٹرش، جنہوں نے ماضی میں بھی کئی بار مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کیا، نے بھی اسی طرز کا بیان جاری کیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا ’وہ دن گزر گئے جب برطانیہ اور دیگر ممالک ہمارا مستقبل طے کرتے تھے۔ مینڈیٹ ختم ہو چکا ہے اور اس اسرائیل مخالف اقدام کا واحد جواب ہے تاریخی یہودی وطن یہودیہ و شمیرون پر خودمختاری کا اطلاق، اور فلسطینی ریاست کے خواب کو ہمیشہ کے لیے ایجنڈے سے ہٹانا۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’محترم وزیر اعظم، وقت اب ہے اور یہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا