اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعے کو بھاری اکثریت سے ایک اعلامیے کی توثیق کی ہے جس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے ’عملی، وقت کے پابند اور ناقابل واپسی اقدامات‘ پر زور دیا گیا ہے۔
سات صفحات پر مشتمل اعلامیہ جولائی میں اقوام متحدہ میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے، جس کی میزبانی سعودی عرب اور فرانس نے کی تھی۔
امریکہ اور اسرائیل نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اعلامیے کی توثیق کرنے والی قرارداد کے حق میں 142 ووٹ آئے، مخالفت میں 10 اور 12 ممالک نے غیرحاضری اختیار کی۔
یہ ووٹنگ 22 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقعے پر عالمی رہنماؤں کی ملاقات سے قبل ہوئی ہے، جہاں برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور بیلجیم سے توقع ہے کہ وہ باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔
جنرل اسمبلی کے 193 رکن ممالک کے منظور شدہ اعلامیے میں سات اکتوبر، 2023 کو فلسطینی تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملوں کی مذمت کی گئی ہے جن کے نتیجے میں غزہ کی جارحیت شروع ہوئی۔
اعلامیے میں اسرائیل کے غزہ میں عام شہریوں اور شہری تنصیبات پر حملوں، محاصرے اور قحط کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کے باعث ’تباہ کن انسانی المیہ اور تحفظ کا بحران‘ پیدا ہوا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے کہا کہ اس قرارداد نے حماس کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔
انہوں نے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ’آج پہلی بار اقوام متحدہ نے ایک ایسا متن منظور کیا ہے جس میں حماس کو اس کے جرائم پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔‘
قرارداد کی حمایت تمام خلیجی عرب ممالک نے کی جبکہ اسرائیل اور امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
دیگر ممالک میں ارجنٹائن، ہنگری، مائیکرونیشیا، نؤرو، پلاؤ، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے اور ٹونگا شامل تھے۔
قرارداد میں منظور شدہ اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں جنگ ’اب ختم ہونی چاہیے‘ اور اس مقصد کے لیے سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن بھیجنے کی حمایت کی گئی۔
امریکہ نے اس ووٹ کو ’ایک اور گمراہ کن اور وقت سے پہلے کی تشہیری کوشش‘ قرار دیا، جو تنازع ختم کرنے کی سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
امریکی سفارت کار مورگن اورٹاگس نے جنرل اسمبلی کو بتایا ’یقین رکھیں، یہ قرارداد حماس کے لیے ایک تحفہ ہے۔ امن کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کانفرنس نے جنگ کو طول دیا، حماس کو تقویت دی اور امن کے امکانات کو قلیل اور طویل المدت دونوں حوالوں سے نقصان پہنچایا۔‘
اسرائیل نے، جو طویل عرصے سے اقوام متحدہ پر سات اکتوبر کے حملوں میں حماس کو نامزد نہ کرنے پر تنقید کرتا آیا ہے، اعلامیے کو یک طرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور ووٹنگ کو ’ڈرامہ‘ کہا۔
اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے کہا ’اس کا واحد فائدہ اٹھانے والا حماس ہے۔ جب دہشت گرد خوشی منا رہے ہوں تو یہ امن کی پیش رفت نہیں بلکہ دہشت گردی کی پیش رفت ہے۔‘
’اعلان نیویارک‘ کے نام سے یہ اس اعلامیے کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کے دو ریاستی حل میں نئے سرے سے جان ڈالنا ہے لیکن اس عمل میں فلسطینی تنظیم حماس شامل نہیں ہو۔
قرارداد کا باضابطہ نام ’نیویارک ڈیکلریشن برائے پرامن تصفیہ مسئلہ فلسطین اور دو ریاستی حل کا نفاذ‘ ہے۔
اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’حماس کو تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا‘ اور یہ کہ جنرل اسمبلی ’سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے عام شہریوں پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ’غزہ کی جنگ ختم کرنے، اور اسرائیل فلسطینی تنازعے کے منصفانہ، پرامن اور دیرپا حل کے لیے اجتماعی اقدام کیا جائے، جو دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ پر مبنی ہو۔‘
یہ ڈیکلریشن، جس کی پہلے ہی عرب لیگ توثیق کر چکی ہے اور جس پر جولائی میں 17 رکن ممالک نے دستخط کیے جن میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں، حماس کی محض مذمت سے آگے بڑھ کر اسے غزہ کی قیادت سے مکمل طور پر الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈیکلریشن کے مطابق ’غزہ کی جنگ کے خاتمے کے تناظر میں حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کرنی ہوگی اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے، بین الاقوامی شمولیت اور تعاون کے ساتھ، تاکہ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مقصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘
انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر رچرڈ گوان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ حقیقت کہ جنرل اسمبلی آخرکار ایک ایسے متن کی حمایت کر رہی ہے جو براہ راست حماس کی مذمت کرتا ہے، اہم ہے۔ خواہ اسرائیلی یہ کہیں گے کہ یہ بہت کم اور بہت دیر سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب کم از کم وہ ریاستیں جو فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہیں، اسرائیلی الزامات کو مسترد کر سکتی ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر حماس کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ اسرائیلی تنقید کے خلاف ڈھال ہے۔‘
’نیویارک ڈیکلریشن‘ میں اس بات پر بھی غور شامل ہے کہ تباہ حال خطے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک ’عارضی بین الاقوامی استحکام مشن‘ تعینات کیا جائے، جس کا مقصد فلسطینی شہری آبادی کی مدد کرنا اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
193 رکن ممالک میں سے تقریباً تین چوتھائی وہ فلسطینی ریاست تسلیم کرتے ہیں جس کا اعلان 1988 میں جلاوطن فلسطینی قیادت نے کیا۔
دو برس کے اسرائیلی حملوں نے غزہ پٹی کو تباہ کر دیا۔ اس کے ساتھ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع اور اسرائیلی حکام کی جانب سے اس علاقے کو ضم کرنے کے علانیہ ارادے نے اس خدشے کو جنم دیا کہ کہیں آزاد فلسطینی ریاست کا وجود جلد ہی ناممکن نہ ہو جائے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے جمعرات کو کہا کہ ’ہم اپنا یہ وعدہ پورا کریں گے کہ کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو گی۔‘