اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعہ 12 ستمبر کو ’اعلان نیویارک‘ کے نام سے ایک قراداد پر رائے شماری ہو گی۔
یہ ایک ایسی قرارداد ہے جس کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کے دو ریاستی حل میں نئے سرے سے جان ڈالنا ہے لیکن اس عمل میں فلسطینی تنظیم حماس شامل نہیں ہو۔
اگرچہ اسرائیل گذشتہ تقریباً دو برس سے اقوام متحدہ کے اداروں پر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کی مذمت نہ کرنے پر تنقید کر رہا ہے، لیکن فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد کوئی ابہام نہیں چھوڑا گیا۔
قرارداد کا باضابطہ نام ’نیویارک ڈیکلریشن برائے پرامن تصفیہ مسئلہ فلسطین اور دو ریاستی حل کا نفاذ‘ ہے۔ اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’حماس کو تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا‘ اور یہ کہ جنرل اسمبلی ’سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے عام شہریوں پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرتی ہے۔‘
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ’غزہ کی جنگ ختم کرنے، اور اسرائیل فلسطینی تنازعے کے منصفانہ، پرامن اور دیرپا حل کے لیے اجتماعی اقدام کیا جائے، جو دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ پر مبنی ہو۔‘
یہ ڈیکلریشن، جس کی پہلے ہی عرب لیگ توثیق کر چکی ہے اور جس پر جولائی میں 17 رکن ممالک نے دستخط کیے جن میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں، حماس کی محض مذمت سے آگے بڑھ کر اسے غزہ کی قیادت سے مکمل طور پر الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈیکلریشن کے مطابق: ’غزہ کی جنگ کے خاتمے کے تناظر میں، حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کرنی ہوگی اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے، بین الاقوامی شمولیت اور تعاون کے ساتھ، تاکہ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مقصد کو آگے بڑھایا جا سک۔‘
یہ ووٹنگ اقوام متحدہ کے اس سربراہی اجلاس سے پہلے ہوگی جو 22 ستمبر کو نیویارک میں ریاض اور پیرس کی مشترکہ صدارت میں ہوگا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کا وعدہ ہے کہ وہ اس اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے۔
تنقید کے خلاف تحفظ
انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر رچرڈ گوان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ حقیقت کہ جنرل اسمبلی آخرکار ایک ایسے متن کی حمایت کر رہی ہے جو براہ راست حماس کی مذمت کرتا ہے، اہم ہے۔ خواہ اسرائیلی یہ کہیں گے کہ یہ بہت کم اور بہت دیر سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب کم از کم وہ ریاستیں جو فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہیں، اسرائیلی الزامات کو مسترد کر سکتی ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر حماس کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ اسرائیلی تنقید کے خلاف ڈھال ہے۔‘
میکروں کے علاوہ کئی اور رہنماؤں نے بھی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان اقدامات کو اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ غزہ کی جنگ ختم کرائی جا سکے۔
’نیویارک ڈیکلریشن‘ میں اس بات پر بھی غور شامل ہے کہ تباہ حال خطے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک ’عارضی بین الاقوامی استحکام مشن‘ تعینات کیا جائے، جس کا مقصد فلسطینی شہری آبادی کی مدد کرنا اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
193 رکن ممالک میں سے تقریباً تین چوتھائی وہ فلسطینی ریاست تسلیم کرتے ہیں جس کا اعلان 1988 میں جلاوطن فلسطینی قیادت نے کیا۔
دو برس کے اسرائیلی حملوں نے غزہ پٹی کو تباہ کر دیا۔ اس کے ساتھ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع اور اسرائیلی حکام کی جانب سے اس علاقے کو ضم کرنے کے علانیہ ارادے نے اس خدشے کو جنم دیا کہ کہیں آزاد فلسطینی ریاست کا وجود جلد ہی ناممکن نہ ہو جائے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے جمعرات کوکہا کہ ’ہم اپنا یہ وعدہ پورا کریں گے کہ کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی۔‘
دوسری طرف فلسطینی صدر محمود عباس کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جانے سے روکے جانے کا امکان ہے کیوں کہ امریکی حکام کہہ چکے ہیں وہ انہیں ویزا نہیں دیں گے۔