سلامتی کونسل میں غزہ کی قرارداد پر امریکی ویٹو ’تاریک لمحہ‘ ہے: پاکستان

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد منظور نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ’غزہ میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران کا ازالہ تھا۔‘

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعرات کو غزہ سے متعلق قرارداد امریکہ کے ویٹو کی وجہ سے منظور نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’تاریک لمحہ‘ قرار دیا ہے۔

15 رکنی سلامتی کونسل کے اجلاس میں 10 مستقل اراکین کی جانب سے تیار کی گئی اس قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 14 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس قرارداد میں غزہ کی انسانی صورت حال کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا گیا تھا کہ وہ 21 لاکھ فلسطینیوں تک امداد پہنچانے پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے۔

اس قرارداد میں جنگ بندی کو قیدیوں کی رہائی کے ساتھ جوڑا گیا اور فلسطینی عوام کی مشکلات پر بھی زور دیا گیا تھا۔

تاہم امریکہ نے ویٹو کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ قرارداد حماس کی مذمت کے لیے کافی سخت نہیں اور اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم نہیں کرتی۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے قرارداد منظور نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ’غزہ میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران کا ازالہ تھا۔‘

بقول عاصم افتخار: ’یہ کوئی معمولی کارروائی نہیں تھی۔ یہ ایک موقع تھا بے مثال بربریت اور تباہی اور غزہ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے دوران عمل کرنے کا، جبکہ اسرائیلی زمینی حملے شدت اختیار کر رہے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قرارداد منظور نہ ہونے کے پیچھے کسی کے ارادے یا کوشش کی کمی نہیں تھی بلکہ امریکہ کا ویٹو تھا، جس پر معذرت ہونی چاہیے۔

بقول عاصم افتخار: ’اس کونسل کی ایک واضح اکثریت نے مسلسل فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ غزہ میں قتل و غارت کو روکا جا سکے اور ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ جس چیز نے کونسل کو عمل سے روکا وہ ویٹو کا استعمال تھا، جس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور معذرت وہیں ہونی چاہیے۔‘

پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ’ایسے شدید انسانی المیے کے لمحات میں کونسل کو اس کے مینڈیٹ کی ادائیگی سے روکنا دراصل (غزہ کے شہریوں کی) مشکلات کے جاری رہنے میں معاون نظر آتا ہے۔ جنہوں نے یہ  راستہ اختیار کیا ہے انہیں اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران 64 ہزار سے زائد اموات، بھوک اور قحط سے 400 سے زائد اموات، انفراسٹرکچر کی تباہی اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی سمیت فلسطینیوں کے دیگر مصائب کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے’ فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی اور تمام فوجی کارروائیوں کے خاتمے‘ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے فوری، غیر مشروط طور پر امداد کی غزہ بھر میں فراہمی اور بلا رکاوٹ رسائی پر بھی زور دیا۔

سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد میں اقوام متحدہ کے ایک آزاد مشن کی حالیہ رپورٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ غزہ قحط کے شکنجے میں آ چکا ہے اور جنگ بندی و امداد کے بغیر یہ پورے علاقے میں پھیل سکتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کا غزہ شہر میں نیا زمینی آپریشن بھی جاری ہے، جس کے مہینوں تک جاری رہنے کے خدشات ہیں۔

پاکستانی مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ اسلام آباد مطالبہ کرتا ہے کہ ’فلسطینی مسئلے کا ایک منصفانہ، دیرپا اور پرامن حل متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی جواز کے مطابق ایک خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’حالات جیسے بھی ہوں، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم بولتے رہیں گے، عمل کرتے رہیں گے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے۔‘

اس قرارداد پر ووٹنگ ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہونے جا رہا ہے، جہاں غزہ ایک بڑا موضوع ہو گا اور امریکہ کے کئی اہم اتحادی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق قرارداد منظور نہ ہونے پر فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا: ’میں فلسطینی عوام کے غصے، مایوسی اور ناامیدی کو سمجھ سکتا ہوں جو شاید سلامتی کونسل کا یہ اجلاس دیکھ رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ کوئی مدد ملے گی اور یہ ڈراؤنا خواب ختم ہو جائے گا۔ میں ان کے غصے اور مایوسی کا اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔‘

الجزائر کے سفیر عمار بن جمہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’اس سلامتی کونسل کے 14 بہادر اراکین نے اپنی آواز بلند کی۔ انہوں نے ضمیر کے ساتھ اور عالمی رائے عامہ کی خاطر عمل کیا۔‘

اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’یرغمالیوں کو رہا نہیں کروائے گی اور نہ ہی خطے میں امن لائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اسرائیل حماس کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے گا اور اپنے شہریوں کا تحفظ کرے گا، چاہے سلامتی کونسل دہشت گردی پر آنکھیں بند کرنے کو ترجیح دے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان