سیاحت میں لاحق خطرات اور ان کا حل

کیا پاکستان میں سیاحوں کے لیے احتیاطی تدابیر، موسمی و جغرافیائی آگہی اور سیفٹی پروٹوکولز کا مؤثر نظام اور اداروں کی اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ محفوظ سیاحت کو فروغ دے سکیں؟

22 جولائی، 2025 کو حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے جاری اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں پاکستانی فوجی اہلکاروں کو بابوسر میں لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ مقام پر سیاحوں کو نکالنے میں مدد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

سوات میں کچھ عرصہ قبل سیاحت پر آئے ایک ہی خاندان کے 14 افراد کی موت، روندو میں سیاحوں کی کار کے حادثے کے ایک ہفتے بعد نعشوں کا ملنا اور حال ہی میں  کراچی کے احمر لودھی کی بہو اور بیٹے کی کچورا ژوق ویلی میں رافٹنگ کے دوران المناک موت نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں کہ ہم سیاحت کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں؟ 

گو وزیر اعظم نے کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاکستان کو دنیا کے سیاحتی مقام میں اول پوزیشن میں لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

لیکن کیا ملک کے مختلف سیاحتی مقامات اور علاقوں تک رسائی قابل عمل ہے؟

کیا سیاحوں کو احتیاطی تدابیر، موسمی حالات اور جغرافیائی خدوخال سے متعلق آگہی دینے کا نظام موجود ہے؟ کوئی سیفٹی پروٹوکولز ہیں؟ 

کیا ہمارے انتظامی اور حفاظتی اقدامات کرنے والے اداروں کی استعداد اس سطح کی ہے کہ وہ محفوظ سیاحت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں؟

ان سوالوں کے تسلی بخش جواب ملنا مشکل ہیں کیونکہ متذکرہ حادثات کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں۔  

باقی چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف گلگت بلتستان کی صورتحال کو دیکھتے ہیں کیونکہ باقی صوبوں کا ہمیں صحیح علم نہیں کہ وہاں سیاحت کے لیے کیا وسائل اور طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان قدرتی طور پر حسین مگر زیادہ تر پہاڑی سلسلوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ 

دیامیر اور گلگت ڈویژن پہنچنے کے لیے قراقرم ہائے وے KKH، جبکہ بلتستان ڈویژن کے لیے KKH کے بعد سکردو روڈ، جو اب جگلوٹ - سکردو روڈ JSR کہلاتی ہے، اس سے گزرنا پڑتا ہے۔

KKH کی لمبائی حسن ابدال سے لے کر خنجراب تک 1300 کلومیٹر جبکہ JSR کی جنکشن پوائنٹ عالم برج کے پاس سے لے کر سکردو ریڈیو پاکستان چوک تک 167 کلومیٹر ہے۔ 

اسی KKH سے مزید ذیلی راستے داریل، تانگیر، استور اور غذر کی طرف نکلتے ہیں، جبکہ KKH کا ایک حصہ خنجراب جاتا ہے جو ہنزہ اور نگر کو بھی جوڑ دیتا ہے۔ 

سکردو روڈ سے مزید راستے شگر، کھرمنگ اور گانچھے ضلعوں تک جانے لیے ایک نیٹ ورک بناتے ہیں۔

کے کے ایچ کا زیادہ تر حصہ بلندی پر تعمیر ہوا ہے اور نچلی طرف گہری کھائیوں میں دریائے سندھ بہتا ہے۔ 

یہ دریا بلتستان سے سکردو روڈ کے ساتھ ساتھ تندو تیز بہتا ہوا دریائے گلگت، دریائے ہنزہ اور دریائے استور کے علاوہ درجنوں ندی نالوں کو اپنے اندر سمو کر مانسہرہ کی طرف بہہ نکلتا ہے۔

یوں KKH اور JSR کی کل لمبائی 1400 کلومیٹر بنتی ہے جس میں قدرتی خطرات کے ساتھ انسانی غفلت اور عجلت پسندی کی وجہ سے جان و مال کے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔

علاوہ ازیں مختلف وادیوں اور سیاحتی مقامات تک جانے کے راستے پیچ دار، تنگ، زینہ دار چڑھائی اور اکثر بلندی پر ہیں جہاں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

سیاحت سے منسلک حفاظتی اور سیکورٹی ماہرین محفوظ اور پائیدار سیاحت کو درپیش خطرات کی دو طرح سے درجہ بندی کرتے ہیں۔

پہلا خطرہ سیکورٹی واقعات ہیں۔ اس میں جنگ، دہشت گردی، سماجی اور سیاسی انتشار، جرائم جیسے کہ اغوا، ڈکیتی، لوٹ مار وغیرہ شامل ہیں۔

ان کی وجہ سے سیاحوں کی جان و مال خطرے میں پڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق دوسرا خطرہ وہ حادثات ہیں جو سیفٹی سے متعلق ہیں۔

یہ انفراسٹرکچر، ماحولیاتی، سیاحوں کے رویے اور طرز عمل کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ 

ان میں سیلاب، زلزلے، آگ، روڈ ایکسیڈنٹ، خطرناک تفریحی سرگرمیاں اور بے احتیاطی شامل ہے۔ گلگت بلتستان قدرتی حسن اور ایڈونچر ٹوارزم کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ کچھ سالوں سے ہوائی اور زمینی راستوں کے ذریعے سیاح جوق در جوق یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ 

محکمہ سیاحت کے گذشتہ سال کے اعداد وشمار کے مطابق 2024 میں 10 لاکھ سے زائد ملکی اور 20 ہزار سے زائد غیر ملکی سیاح گلگت بلتستان آئے۔ 

ان سیاحوں کو خدمات کی فراہمی اور ٹوارزم مینیجمنٹ ایک اور موضوع ہے جو یہاں زیر بحث نہیں۔ علاوہ ازیں سکیورٹی حادثات ( security incident) بھی زیر گفتگو نہیں کیونکہ یہ معاملات بھی گلگت بلتستان میں نہیں۔

یہاں صرف ان مسائل کو دیکھتے ہیں جو قدرتی، حفاظتی انفراسٹرکچر، آگاہی و تشہیر، سیاحوں کی مینیجمنٹ اور ان کے طرز عمل سے متعلق ہیں۔

قدرتی حادثات جیسے کہ زلزلہ، سیلاب اور طوفان وغیرہ کا روکنا ممکن نہیں۔ تاہم بروقت منصوبہ بندی اور دیرپا تعمیرات کے تحت ان سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ 

جہاں تک سفری انفراسٹرکچر کی بات ہے تو گلگت بلتستان تک زیادہ تر رسائی KKH کے ذریعے ہے۔

یہ شاہراہِ 1978 میں چین کے تعاون سے بنائی گئی اور اب اس کا تجدیدی کام بھی چین ہی کر رہا ہے۔ 

اس آپ گریڈیشن میں انفراسٹرکچر سیفٹی کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ سرنگ بنا کر پہاڑی تودہ گرنے کے خطرات کو کم کر دیا گیا ہے۔ 

علاوہ ازیں مشکل موڑ اور عمودی چڑھائی کی جگہ متبادل راستہ پلوں کے اوپر بنایا جا رہا ہے۔ یوں سفری حادثات کو گھٹا کر بالکل ختم کیا جا رہا ہے۔ 

تاہم جگلوٹ سکردو روڈ (JSR) ان اہم سیفٹی سہولیات سے عاری ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پتھر، ملبہ گرنے اور خطرناک موڑوں پر پائیدار باڑ کے نہ ہونے کی وجہ سے کئی جان لیوا حادثات ہوئے۔ 

اس سڑک پر تین سے چار سرنگیں بننا تھیں، مگر وہ ایسے غائب ہو گئیں کہ ’اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘  کے مصرعے کی طرح یہ شاید کاغذات میں ہی ملیں۔

سیفٹی کے حوالے سے ایک اہم عنصر آگاہی اور تشہیری مہم ہے جس کے تحت سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک نشانات، احتیاطی تدابیر اور معلومات سے متعلق سائن بورڈز مناسب انداز میں نصب کرنا ہے۔

KKH میں چونکہ چین کے تعاون سے تجدیدی کام ہو رہا ہے لہٰذا یقین ہے کہ اس بین الاقوامی کام کے تحت روڈ سیفٹی کے حوالے سے حفاظتی پروٹوکولز کی تشہیر کا بہتر انتظام کیا جائے گا۔ 

جہاں تک JSR کا تعلق ہے وہاں ٹریفک سائن بورڈز تو لگے ہیں، تاہم پچھلے ایک دو سالوں سے حادثات کی وجہ سے کچھ اضافی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ایک مثبت اور بامعنی پیش رفت ایڈیشنل کمشنر روندونے کی ہے۔

انہوں نے گلگت سکردو روڈ پر روندو ایریا کے داخلی اور خارجی مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ نصب کیے ہیں۔ 

ان بورڈز میں عالم پل کے پاس زیرو پوائنٹ سے لے کر ریڈیو پاکستان چوک سکردو تک JSR کا سکیچ دیا گیا ہے اور شنگس، ملوپا، گنجی پڑی، استک ایریا اور تنگس ایریا میں جہاں جہاں لینڈ سلائیڈنگ، پتھر گرنے کا خطرہ، سیلابی پانی آنے کی جگہ، تنگ پڑی اور خطرناک موڑ ہیں ان سب کی نشاندہی کی گئی ہے اور احتیاطی تدابیر سے متعلق ٹریفک نشانات ڈالے گئے ہیں۔ 

انہی بورڈز کے ایک طرف سیاحوں اور دیگر سفر کرنے والوں کے لیے مختلف ہدایات اور رہنمائی بھی درج ہے۔ 

علاوہ ازیں ریسٹ ایریاز، طبی سہولیات کی نشاندہی اور ایمرجنسی رابطے بھی دیے گئے ہیں۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے ایک اور اچھا قدم یہ اٹھایا ہے کہ ان متذکرہ ہدایات اور نقشے کا بروشر بنا کر JSR میں پولیس چیک پوسٹوں پر تقسیم کرنے کا بھی بندوبست کیا ہے۔

یہ بہترین قدم ہے اور اگر روزانہ کی بنیاد پر سیاحوں کی ڈیٹا مینیجمنٹ ہو کہ سیاح JSR میں کس تاریخ کو گزر کر سکردو کی طرف گئے ہیں تو اس سے کسی کے لاپتہ ہونے کا بھی بروقت پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

نیز JSR روڈ اور سیاحتی مقامات پر زیادہ تر ایس کام سم استعمال ہوتی ہے لہٰذا اس سم کے ذریعے درج بالا احتیاطی تدابیر والے بروشر کا متن آواز کی صورت میں بھیجا جا سکتا ہے۔

تیسرا عنصر جو زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہ سیاحوں کا رویہ اور طرز عمل ہے، نیز ٹورسٹ مینیجمنٹ بھی ایک کلیدی کام ہے۔

سیاح بعض اوقات اپنی جان کو خود خطرے میں ڈالتے ہیں جب وہ ایسی سرگرمی کا حصہ بنتے  ہیں جس میں نقصان کا احتمال رہتا ہے۔ 

خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں تیز رفتار ڈرائیونگ، بغیر احتیاطی تدابیر اور گائیڈ کے کوہ پیمائی، دریاؤں اور ندی نالوں میں تیراکی یا غیر ماہرانہ انداز میں رافٹنگ، برف اور گلیشیئرز میں سکیٹنگ۔

ان جیسی سرگرمیوں میں کمزور فٹنس، ناآشنائی اور ماحول سے غیر ہم آہنگی کی وجہ سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔

ٹورسٹ مینیجمنٹ کمپنیوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کلائنٹس کو باخبر رکھیں کہ مختلف سیاحتی مقامات پر کن احتیاطی تدابیر کو سامنے رکھا جائے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ