کراچی خودکش حملہ آور خاتون ایم فل کی طالبہ تھیں: پولیس

شاری بلوچ کے ایک نزدیکی رشتہ دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون ان کی رشتہ دار شاری بلوچ عرف برمش ہی تھیں۔ 

شاری بلوچ عرف برمش کی بی ایل اے کی جانب سے دو بچوں کے ساتھ جاری کی جانے والی دو تصاویر میں سے ایک (بی ایل اے)

کراچی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ شاری بلوچ عرف برمش سرکاری سکول میں استانی اور دو بچوں کی ماں تھیں۔

بیرون ملک مقیم شاری بلوچ کے ایک نزدیکی رشتہ دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون ان کی رشتہ دار شاری بلوچ عرف برمش ہی تھیں۔ 

ان کے مطابق ’خاندان والے سکیورٹی خدشات کے باعث میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں جنہیں ’واقعے کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا۔‘ 

جامعہ کراچی میں واقع چینی انسٹی ٹیوٹ کے قریب منگل کی دوپہر ایک وین پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک جبکہ ایک رینجرز اہلکار سمیت چار افراد زخمی ہوگئے تھے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسر راجہ عمر خطاب نے تصدیق کی ہے کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سیاہ رنگ کی برقع پوش نوجوان خاتون نے گاڑی کے انتہائی قریب کیا۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق اس دھماکے کے لیے آر ڈی ایکس یا سی فور کا استعمال کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن  نے بدھ کو مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ کراچی یونیورسٹی میں خودکش کرنے والی ایک خاتون تھیں جن کی شناخت کر لی گئی ہے۔

یہ خاتون جامعہ کراچی کی طالبہ تھی اور ہاسٹل میں ہی رہتی تھیں۔ شدت پسند خاتون نے جامعہ کراچی سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا تھا اور ایم فل فرسٹ ائیر میں تھیں۔

غلام نبی میمن  کے مطابق ممکنہ طور پر خاتون کو دھماکہ خیز مواد یونیورسٹی کے اندر ہی فراہم کیا گیا۔ ان کوسی سی ٹی فوٹیجز میں مطئمن دیکھا گیا ہے، گاڑی اور اس میں موجود غیرملکی اساتذہ کی نقل و حرکت کی مکمل ریکی کی گئی تھی، خاتون کے جامعہ میں تعلیمی ریکارڈ کو چیک کیا جا رہا ہے۔

دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔

حملے کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاتون کی مدد سے یہ خودکش دھماکہ کیا گیا۔‘

بعد میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کا نام شاری بلوچ بتایا گیا اور اس کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں شاری بلوچ کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’شاری کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ انہوں نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے زوالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔‘

شاری بلوچ کے رشتہ دار نے مزید بتایا کہ ’2019 میں انہیں (شاری بلوچ) محکمہ تعلیم بلوچستان میں سرکاری ملازمت مل گئی اور وہ آخری وقت تک بلوچستان کے شہر تربت سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلاتک یونین کونسل کے ایک سرکاری سکول گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔‘ تاہم سکول سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں، جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔‘

ترجمان بی ایل اے کا کہنا ہے کہ ’شاری نے دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی اور چھ ماہ قبل انہوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ حملہ کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ اس کے بعد سے وہ اپنے مشن میں سرگرم عمل تھیں۔‘

شاری بلوچ کے رشتہ دار کے مطابق: ’سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ شاری بلوچ کے خاندان میں کچھ افراد لاپتہ ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے انتقام لینے کے لیے ایسا قدم اٹھایا لیکن ان کے خاندان میں آج تک کوئی ایک فرد بھی لاپتہ نہیں ہوا، وہ اپنی تنظیم کے ساتھ نظریاتی طور پر کمیٹڈ تھیں، اس لیے شاید ایسا قدم اٹھایا۔‘ 

وہ بتاتے ہیں کہ ’خاندان میں سب پڑھے لکھے اور بیوروکریسی کا حصہ ہیں، اور ان کے شوہر ڈاکٹر ہیں۔‘

انہوں نے شاری بلوچ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ کالج دور سے بی ایس او آزاد کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کو جوائن کر لیا۔‘

کراچی یونیورسٹی دھماکے کے بعد ایک ٹویٹ وائرل ہوئی، جس میں شاران بلوچ نامی صارف کی جانب سے براہوی زبان میں لکھا تھا: ’رخصت اف اوران سنگت‘۔ جس کا مطب ہے کہ ’وہ جا رہی ہیں ہیں، مگر یہ سنگت چلتی رہے گی۔‘ 

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کی جانب سے حملہ کرنے والے کا بیان ہوتا ہے۔ شاری بلوچ کے رشتہ دار نے تصدیق کی کہ یہ انہی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔ 

اس اکاؤنٹ کے تعارف میں لکھا ہوا ہے کہ انہوں نے ایم ایس سی زوالوجی میں اور ایم ایڈ اور ایم فل ایجوکیشن میں کر رکھا تھا، جس کو لے کر سوشل میڈیا کے کچھ صارفین نے دعویٰ کیا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کی طالبہ رہی ہیں۔ 

تاہم اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے انڈپینڈٹ اردو کو تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر ایسی باتیں ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے شعبہ داخلہ شعبے کے عملے کو چھٹی کے بعد واپس بلا کر ریکارڈ چیک کرنے کا کہا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا وہ کراچی یونیورسٹی کی طالبہ تو نہیں تھیں۔

ترجمان کے مطابق شاری بلوچ کے نام سے ایک اور طالبہ کا ریکارڈ تو موجود ہے مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ یہ وہیں ہیں یا نہیں۔

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے کئی پولیس افسران سے شاری بلوچ کے متعلق جاننے کی کوشش کی مگر ان افسران کے مطابق تحقیقات انتہائی ابتدائی مراحل میں ہیں اور ان کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

خیال رہے کہ علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ماضی میں بھی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی یہ کہہ کر مخالفت کرتا رہا ہے کہ مقامی لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پہلا موقع ہو گا جب بی ایل اے کی جانب سے خودکش حملہ کسی خاتون عسکریت پسند نے کیا ہو۔ پاکستانی طالبان کی طرح اس گروپ نے متعدد مواقع پر چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔

چین وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں چین پاک اقصادی راہداری منصوبے کے تحت مصروف ہے۔

خواتین کے خودکش حملوں کی تاریخ

خواتین نے طویل عرصے سے دنیا بھر میں حقیقت میں شورش، انقلاب اور جنگ میں حصہ لیا ہے۔ پہلی خاتون خودکش بمبار، ایک 17 سالہ لبنانی لڑکی صنعا ہیدالی کو سیریئن سوشلسٹ نیشنل پارٹی جو ایک سیکولر شام کی حامی تھی نے خود کو لبنان میں ایک اسرائیلی قافلے کے قریب دھماکے سے اڑانے کے لیے 1985 میں بھیجا تھا۔

اس حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

بعد میں لبنان سے خواتین بمباروں کے واقعات دیگر ممالک جیسے کہ سری لنکا، ترکی، چیچنیا، اسرائیل اور عراق تک پھیل گئے۔

2007 تک تقریباً 17 گروپوں میں سے جنہوں نے خود کش بمبار کی حکمت عملی کا استعمال شروع کیا تھا، ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین تھیں۔

1985 اور 2006 کے درمیان 220 سے زیادہ خواتین خودکش حملہ آور ہوئیں۔  بلوچ مزاحمت میں یہ پہلا ایسا واقع ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان