طالبان حکومت کا خودکش بمباروں کے اہل خانہ کے لیے پلاٹ کا اعلان

وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں بتایا کہ خودکش بمباروں کے والدین کو 10 ہزار افغانی (110 ڈالر) اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ ایک ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا۔

طالبان کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری اس تصویر میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کو  نہیں دکھایا گیا (تصویر:افغان وزارت داخلہ)

افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے ملک میں گذشتہ دو دہائیوں میں غیرملکی اور افغان فوجیوں کو نشانہ بنانے والے خودکش بمباروں کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے، جس کے دوران ان افراد کو پلاٹوں سمیت دیگر مراعات دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔

خامہ نیوز ایجنسی کی ایک خبر کے مطابق ان خودکش حملہ آوروں کے والدین کو کابل کے لگژری ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں مدعو کیا گیا، جسے طالبان خودکش بمباروں نے کئی مرتبہ نشانہ بنایا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں بتایا کہ والدین کو 10 ہزار افغانی (110 ڈالر) اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ ایک ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا۔

سعید خوستی نے مزید کہا کہ ’خودکش بمباروں کو حقیقی ہیرو کے طور پر سراہا گیا۔‘

سراج الدین حقانی، جو آج بھی تصاویر نہیں بنواتے، حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں، جس نے افغانستان میں گذشتہ 15 سالوں میں بہت سے خودکش حملے کیے۔ وہ امریکہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں اور ان پر پانچ ملین ڈالر کا انعام ہے۔

کابل ایک ایسا شہر رہا ہے جہاں طالبان نے گذشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ خودکش حملے کیے، جن میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔

خودکش حملے طالبان کے ہتھیاروں میں سب سے اہم ہتھیار رہا ہے، تاہم ایک رپورٹ کے مطابق خودکش حملوں کی تعداد میں 2020 میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔

ایک اسرائیلی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز (آئی این ایس ایس) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں کُل 127 خودکش دھماکے کیے گئے تھے۔ ان حملوں میں 765 افراد ہلاک اور 1925 زخمی ہوئے۔

اس کے مقابلے میں 2019 میں 149 حملے ہوئے تھے، جس میں 1855 افراد ہلاک اور 3663 زخمی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 میں ہر خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی اوسط تعداد چھ تھی جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں آدھی تھی جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 2019 میں 25 سے کم ہو کر 15 ہوگئی۔

ان حملوں کا خمیازہ تین ممالک کو سب سے زیادہ بھگتنا پڑا تھا۔ افغانستان کو 52 حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر طالبان نے کیے تھے۔ اس کے بعد صومالیہ میں 24 اور شام میں 19 حملے ہوئے۔ پاکستان میں بھی تین خودکش حملے ہوئے۔

ادھر شمالی افغان صوبے بلخ میں سکیورٹی حکام نے پیر کو بتایا کہ طالبان حکومت نے صوبے میں ایک خصوصی فورسز یونٹ تشکیل دیا ہے، جس کا نام ’منصوری ڈویژن‘ رکھا گیا ہے۔

طلوع نیوز چینل کے مطابق صوبہ بلخ کے سکیورٹی کے سربراہ عبدالہائی عبید نے کہا کہ’ یہ اسلامی امارت کی خصوصی فوج ہے جسے جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے اور یہ 24 گھنٹے مزار شریف شہر میں گشت کریں گی۔‘ سکیورٹی حکام کے مطابق خصوصی یونٹ انتہائی تربیت یافتہ ہے اور ان کے زیادہ تر ہتھیار اور فوجی ہارڈ ویئر امریکہ میں بنائے گئے تھے۔

خصوصی یونٹ کے اراکین نے بتایا کہ انہیں مزار شریف شہر میں عوام کی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے اور ’مستقبل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

یونٹ کے ایک رکن نے کہا کہ اگر کچھ ہوتا ہے تو لوگوں کو اسلامی امارات کے سکیورٹی حکام سے رابطہ کرنا چاہیے اور وہ فوری طور پر موقع پر پہنچ جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا