پی ٹی آئی کے جلسے پر کتنا خرچ آتا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگانے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان جلسوں کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں۔

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حالیہ دنوں میں متعدد جلسوں سے خطاب کیا ہے (تصویر: پی ٹی آئی آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ان دنوں غیریقینی کی سی صورت حال ہے، جہاں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد آنے والی نئی حکومت انتخابات کروانے یا ’سخت‘ معاشی فیصلے لینے کے درمیان الجھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مسلسل عوامی رابطوں میں مصروف ہے جہاں انہوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان بھی کر رکھا ہے تاہم تاحال تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جبکہ ان کی جانب سے فوری انتخابات کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔

قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک اور پھر ووٹنگ کے نتیجے میں جس دن عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا، اس کے اگلے ہی روز سے پاکستان تحریک انصاف نے اپنی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا تھا اور اب تک اس سلسلے میں وہ پاکستان کے متعدد شہروں میں جلسے کر چکی ہے۔

صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ ان دنوں دیگر سیاسی جماعتیں بھی جلسے کرنے میں مصروف ہیں، جن میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی بھی پیش پیش دکھائی دے رہی ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی فی الحال اس میدان میں کچھ زیادہ آگے ہے، جو اب تک کراچی، پشاور، سیالکوٹ، لاہور سمیت کئی دیگر شہروں میں جلسے کر چکی ہے۔

اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان، صوابی اور کوہاٹ میں بھی جلسوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔

حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی مخالفین کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ’اب ان کی اے ٹیم بھی نہیں رہی ہے،‘ مگر پی ٹی آئی کے حالیہ جلسوں کو دیکھ کر ایسا بالکل بھی نہیں لگتا کہ انہیں بظاہر ’فنڈز‘ کا کوئی مسئلہ درپیش ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی آئی جلسوں پر اخراجات کا تخینہ لگانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ ان جلسوں کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جلسے کہاں منعقد کیے جاتے ہیں۔ صوابی جلسے کی اگر بات کی جائے، تو وہ جلسہ ایک سرکاری گراؤنڈ میں منعقد کیا گیا تھا۔ سرکاری گراؤنڈ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے جلسہ منعقد کرنے کا کوئی کرایہ نہیں لیا جاتا، تاہم مقامی حکومت سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہوتی ہے۔

کسی بھی جلسے کے انعقاد پر سب سے زیادہ اخراجات ساؤنڈ سسٹم کے ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں ساؤنڈ سسٹم زیادہ تر مواقع پر لاہور سے تعلق رکھنے والی معروف کمپنی ’ڈی جے بٹ‘ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جیسا کہ گذشتہ عام انتخابات سے قبل اسلام آباد میں عمران خان کے 120 سے زائد دنوں پر محیط دھرنے میں بھی یہ ذمہ داری ڈی جے بٹ کی تھی۔ بعد میں ڈی جے کا پیسوں پر جماعت سے تنازع بھی پیدا ہوا تھا۔

ساؤنڈ سسٹم سے کرسیوں تک

ساؤنڈ سسٹم کے علاوہ کرسیاں کسی بھی جلسے کا اہم جز ہوتے ہیں اور اسی پر خرچ بھی سب سے زیادہ آتا ہے۔

17 مئی کو پی ٹی آئی کی جانب سے کوہاٹ میں جلسہ منعقد کیا گیا۔ ہم اسی جلسے کے ممکنہ اخراجات کا ہی تخمینہ لگانے کی کوشش کر لیتے ہیں۔

کوہاٹ جلسے میں لائٹس اور ساؤنڈ سسٹم کی ذمہ داری خان ڈی جے نامی کمپنی کو سونپی گئی تھی۔

خان ڈے جے کے عہدیدار ندیم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جلسے میں ساؤنڈ سسٹم اور لائٹیں لگانے کا ٹھیکہ انہیں دیا گیا تھا، جس کے انہوں نے 65 لاکھ روپے لیے ہیں۔

اسی طرح جلسہ گاہ میں لگائی جانے والی ’فوم والی کرسیاں‘ دیگر سٹیل کی کرسیوں سے تھوڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ ان پر آنے والے خرچ کے حوالے سے کیٹرنگ کے کاروبار سے وابستہ محمد سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوہاٹ جلسے میں جو کرسیاں لگائی گئی تھیں ان کا فی کرسی کرایہ 25 سے 30 روپے تک ہے۔

اب اگر دس ہزار کرسیوں کا بھی حساب لگایا جائے تو ان کا کرایہ تقریباً تین لاکھ روپے بنتا ہے۔ سلیم نے بتایا کہ ’کرسیوں کے ساتھ اکثر سٹیج کے لیے کارپٹ وغیرہ بھی رکھے جاتے ہیں جس کا کرایہ الگ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے کارپٹ کا کرایہ تقریباً دو سو روپے ہے۔‘

ویڈیو، سیٹلائٹ کنیکشن اور سوشل میڈیا

ساؤنڈ اور کرسیوں کی بات تو ہو گئی، لیکن پی ٹی آئی کے جلسوں میں ویڈیو، سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ فیڈ کے لیے الگ کمپنی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

کوہاٹ جلسے کو ویڈیو اور سیٹلائٹ کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ سیٹلائٹ کیمروں کا ایک دن کا کرایہ ایک لاکھ روپے تک ہے۔

اسی طرح پشاور میں پروڈکشن ہاؤس کے مالک محمد آفتاب نے بتایا کہ ویڈیو سسٹم جس میں اگر پانچ کیمرے شامل ہوں اور ساتھ میں ڈرون کیمرے بھی ہوں تو اس پر تین لاکھ تک خرچ آتا ہے۔

آفتاب نے بتایا کہ ’یہ خرچ جلسے کے چھوٹے بڑے ہونے پر بھی منحصر ہے اور جلسہ انتظامیہ پر بھی، کہ ان کو کتنے کیمروں کی ضرورت ہے اور اسی حساب سے کیمروں کا کرایہ چارج کیا جاتا ہے۔‘

اب مجموعی طور پر اگر ایک جلسے  پر خرچے کا تخمینہ لگایا جائے تو ساؤنڈ سسٹم، ویڈیو خدمات، کرسیاں اور دیگر انتظامات پر کوہاٹ کے جلسے میں تقریباً 72 لاکھ روپے کا خرچ آیا۔ اس خرچے میں جلسے کے لیے لائے گئے کنٹینرز جو سٹیج وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ہیلی کاپٹر شامل نہیں ہیں۔

سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال

پی ٹی آئی نے گذشتہ روز ضلع مردان میں جلسہ کیا تھا، جس میں اسلام آباد سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے ساتھ عمران خان سرکاری ہیلی کاپٹر میں جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ اسی طرح ایبٹ آباد میں جلسے کے لیے بھی عمران خان خیبر پختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں ہی گئے تھے۔

اسی حوالے سے خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر علی محمد سیف نے بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ محمود خان سرکاری امور کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد میں تھے اور وہ خود مردان جلسے کے لیے جا رہے تھے، تو عمران خان کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔

بیرسٹر سیف نے بتایا تھا: ’یہ وزیراعلیٰ کی صوابدید ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میں کس کو بٹھاتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ 2018 میں بھی جب عمران خان وزیراعظم تھے، تو انہیں قومی احتساب بیورو نے سرکاری ہیلی کاپٹر کے ’غیرقانونی‘ استعمال کی وجہ سے طلب تھا۔

اس کیس میں نیب کا موقف تھا کہ عمران خان نے ہیلی کاپٹر کا جو کرایہ ادا کیا وہ بہت کم ہے۔

انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت عمران خان نے ایم آئی 17 اور ایکروئیول ہیلی کاپٹر استعمال کیا تھا جو خیبر پختونخوا حکومت کا تھا اور انہوں نے فی گھنٹے کے حساب سے حکومت کو صرف 28 ہزار روپے ادا کیے تھے۔

تاہم نیب کا موقف تھا کہ اگر یہی ہیلی کاپٹر عمران خان کسی نجی کمپنی سے ہائر کرتے تو ان کو ایم آئی 17 کے لیے فی گھنٹہ تقریباً دس لاکھ روپے جبکہ ایکروئیول ہیلی کاپٹر کے لیے فی گھنٹہ تقریباً پانچ لاکھ ادا کرنے ہوتے، لیکن انہوں نے حکومت کو صرف 28 ہزار فی گھنٹہ ادا کیا۔

اسی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت کے پاس موجود ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ کرایہ تقریباً دو لاکھ روپے ہے اور یہی ہیلی کاپٹر عمران خان اور وزیراعلیٰ جلسوں میں شرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایئرفورس ٹیکنالوجی نامی ویب سائٹ کے مطابق ایم آئی 17 ہیلی کی سپیڈ فی گھنٹہ کے حساب سے 250 کلومیٹر ہے۔

اب اگر اسی حساب سے اسلام آباد اور مردان کے فاصلے کو دیکھا جائے تو اس پر تقریباً ایک لاکھ کا خرچ آئے گا۔

سکیورٹی کا خرچہ

کسی بھی سیاسی جلسے کے لیے سکیورٹی پولیس فراہم کرتی ہے اور بڑے جلسوں کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں پولیس تعینات کی جاتی ہے۔ تاہم بعض سیاست دان اپنی نجی سکیورٹی بھی رکھتے ہیں۔

اسی حوالے سے انڈپیندنٹ اردو نے پولیس حکام سے بات کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ جلسوں کو سکیورٹی فرہم کرنے پر کتنا خرچہ آتا ہے، لیکن کسی بھی اہلکار نے اس پر آن ریکارڈ بات کرنے سے گریز کیا۔

کھانے پینے کا انتظام

انڈپینڈنٹ اردو نے عمران خان کے ایک جلسے میں شرکا سے پوچھا کہ آپ کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہوتا ہے، تو فیصل آباد سے آنے والے ایک گروپ نے بتایا کہ ہمیں ہمارا ایم این اے لے کر آیا ہے اور اسی کی طرف سے ہمیں کھانے کے پیکٹ مل جاتے ہیں۔ باقی بوتل اور سگریٹ وغیرہ کا خرچ ہم خود پورا کرتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ یہ صرف چند لوگوں سے گفتگو پر مبنی ہے، اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جلسے میں شرکت کرنے والے ہر شخص کو کھانا پی ٹی آئی کی طرف سے ملتا ہے۔

اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسوں کے احاطے سے باہر کھانے پینے کی ریڑھیوں کا ایک بازار اکٹھا ہو جاتا ہے جہاں آئس کریم اور شربت سے لے کر برگر تک دستیاب ہوتے ہیں۔ گویا ان جلسوں کی وجہ سے بہت سے چھوٹے کاروباری حضرات کا بھی بھلا ہو جاتا ہے۔

جلسوں کے لیے فنڈ کہاں سے آتے ہیں؟

تقریباً ایک ماہ قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا تھا کہ ان پارٹی نے ’نامنظور ڈاٹ کام‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ لانچ کی تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے چندہ اکھٹا کیا جا سکے۔

 عمران خان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے فنڈ کی ضرورت ہو گی۔‘

نامنظور ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ان تمام افراد اور ممالک کے نام درج ہیں جو بیرون ملک سے اس فنڈ میں پیسے بھیج رہے ہیں۔

ویب سائٹ کے مطابق اب تک اس فنڈ میں سب سے زیادہ چندہ برطانیہ سے آیا ہے جو مجموعی فنڈ کا تقریباً 30 فیصد ہے۔

اسی طرح دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جہاں سے 28 فیصد سے زیادہ چندہ اکھٹا کیا جا چکا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے جہاں سے اب تک 11 فیصد سے زائد چندہ اکٹھا ہوا ہے۔

چوتھے اور پانچویں نمبر پر کینیڈا اور سعودی عرب ہیں جہاں سے اب تک 10 اور چھ فیصد سے زائد چندہ اکٹھا ہوا ہے۔

تاہم ویب سائٹ پر چندے کے حوالے سے مزید تفصیلات موجود نہیں ہیں جیسے کہ اب تک مجموعی طور پر کتنا چندہ اکٹھا ہوا ہے۔

اسی فنڈ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل نے پورٹل کھلنے کے بعد ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پورٹل کھولنے کے 24 گھنٹوں میں ہی سات لاکھ ڈالرز جمع ہو گئے ہیں تاہم انڈپیندنٹ اردو نے جب اس ٹویٹ کو چیک کیا تو اسے ڈیلیٹ کیا جا چکا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی مجموعی جمع شدہ چندے کے باجرے میں معلومات عام کرنا نہیں چاہتی۔

جلسوں کے لیے فنڈ کہاں سے آتے ہیں؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے شہباز گِل اور پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما فواد چوہدری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔

ان رہنماؤں سے وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ان کا اس حوالے سے موقف موصول ہونے پر اسے اس رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست