شیریں مزاری: جوڈیشل انکوائری اور رہا کرنے کا عدالتی حکم

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ہفتے کی رات پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

(تصویر: اے پی پی)

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ہفتے کی شب پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کو بڑا بدقسمت واقعہ قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ہفتے کی رات ڈاکٹر شیریں مزاری کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ ’یہ عدالت اس قسم کے سنگین مقدمات سے نمٹتی رہی ہے۔ جب آئین کا احترام نہیں ہوگا جب حکومت آئین کا احترام نہیں کرے گی تو کوئی نہیں کرے گا۔

’آپ منتخب ارکان ہیں جب آئین کا احترام نہیں ہوتا تو اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس معاملے پر ہر منتخب حکومت کا رویہ مایوس کن رہا ہے۔‘

وفاقی حکومت کے نمائندے نے عدالت میں کہا کہ وفاقی حکومت کو اس معاملہ کا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک دوسرے صوبے سے کیسے آ کر یہ کارروائی کر سکتے ہیں؟

انہوں نے پوچھا کہ یہ (شیریں مزاری) رکن اسمبلی ہیں کیا سپیکر قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا؟

’دوسرے صوبے آ کر اگر گرفتاری کرنی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار ہے۔‘

چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے پوچھا کیا آپ کو اس کا علم تھا؟ جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شیریں مزاری مجلس شوریٰ کی رکن ہیں۔

اس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ان سے پوچھ لیں کہ کیا یہ مانتی ہیں کہ آج بھی یہ رکن پارلیمنٹ ہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جواب میں کہا کہ ’اس بات کو چھوڑیں، استعفیٰ منظور ہونے کا ایک عمل ہے۔ ابھی تک یہ ڈی نوٹیفائی نہیں ہوئیں۔‘

ڈاکٹر شیریں مزاری کو پنجاب اینٹی کرپشن یونٹ نے اسلام آباد پولیس کی مدد سے سنیچر کی سہ پہر کو ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج جبری گمشدگی کو خود محسوس کیا، جو کچھ ہوا عدالت میں بتاؤں گی۔ پولیس سے بیٹی کو کال کرنے کے لیے کہا لیکن اجازت نہیں ملی۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے گومل روڈ پر میرا فون ٹریس کرکے روکا گیا، مجھے گاڑی سے گھسیٹا گیا اور فون کھینچا گیا۔  انہوں نے بتایا کہ ’اس مرتبہ کالی ویگو نہیں تھی بلکہ وائیٹ کرولا تھی۔ مجھے موٹروے پر لے جایا گیا، پوچھا تو کہا ہو سکتا ہے کہ راجن پور لے جائیں ابھی تو لاہور جا رہے ہیں۔ میرے ناخن توڑے گئے، یہ جبری گمشدگی کا معاملہ ہے۔ اسلام آباد پولیس بھی تشدد کی ذمہ دار ہے۔‘

قبل ازیں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے شیریں مزاری کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔

شیریں مزاری کی گرفتاری پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری بطور خاتون قابل احترام ہیں اور کسی بھی خاتون کی گرفتاری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔

’شیریں مزاری کو گرفتار کرنے والے اینٹی کرپشن عملے کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تفتیش اور تحقیقات کے نتیجے میں اگر گرفتاری ناگزیر ہے تو قانون اپنا راستہ خود بنالے گا، شیریں مزاری کی گرفتاری کے عمل سے اتفاق نہیں کرتا۔‘

’مسلم لیگ ن خواتین کے احترام پر یقین رکھتی ہے، ملتان میں مریم نواز کے بارے میں بے ہودہ زبان کی مذمت کرتے ہیں، مگر انتقام ہمارا شیوہ نہیں۔‘

اس سلسلے میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہماری تحریک پرامن ہے لیکن یہ فسطائی حکومت ملک کو افراتفری کی جانب دھکیلنا چاہتی ہے۔ حکومت انتخابات سے بچنے کے لیے انارکی چاہتی ہے۔ ہم آج احتجاج کریں گے اور کل کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کروں گا۔‘

جبکہ اسلام آباد پولیس نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے معاملے پر موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ڈاکٹر شیری مزاری کو قانون کے مطابق اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ کسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ خواتین پولیس آفیسرز نے محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر گرفتار کیا۔‘

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحب زادی ایمان زینب مزاری نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’شیریں مزاری کی گرفتاری حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے لیے اعلان جنگ ہے۔‘
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا ’شیریں مزاری کی پیدائش 1966  کی ہے جب کہ مقدمہ 1970 میں درج کیا گیا تو کیا چار سال کی بچی کرپشن میں ملوث تھی؟‘
انہوں نے کہا کہ ’شیریں مزاری کے خلاف کرپشن کا کیس ناقابل فہم ہے جو لوگ شیریں مزاری کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کتنی ایماندار اور اصول پسند خاتون ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت کی جانب سے اعلان جنگ ہے اور ایسا ہے تو یہ ہمارا بھی اعلان جنگ ہے۔‘
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’مرد پولیس اہلکاروں نے شیریں مزاری کو اٹھایا اور ان کے ساتھ نامناسب سلوک کیا۔‘

قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں سابق وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ ’اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

اس حوالے سے ٹوئٹر پر ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحب زادی ایمان زینب حاضر مزاری نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا پیٹا اور انہیں لے گئے۔ مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں اینٹی کرپشن ونگ لاہور لے گیا ہے۔‘
 

پاکستان تحریک انصاف سے ہی تعلق رکھنے والے افتخار درانی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ڈاکٹر شیریں مزاری کو اپنی رہائش گاہ کے باہر سے اٹھا لیا گیا ہے۔ سب کہسار پولیس سٹیشن پہنچیں۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل نے بھی اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے اپنے پارٹی ورکرز سے تھانہ کہسار پہنچنے کا پیغام دیا ہے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ ’شیریں مزاری میری پڑوسی اور دوست ہیں۔ ان کی گرفتاری قابل مذمت ہے یہ بدترین سیاسی جبر ہے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان