ضم شدہ قبائلی اضلاع کے بند تجارتی راستے عوامی خسارے کا باعث

دو ہزار 640 کلومیٹرز طویل سرحد پر مجموعی طور پر 235 کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سرکاری طور چھ سرحدوں پر قانونی طور پر آمد ورفت اور تجارت کی جاتی ہے۔

27 فروری 2022 کو پاکستان کے سرحدی شہر چمن میں کنٹینر ٹرک افغانستان میں داخل ہونے کا انتظار کرتے ہوئے قطار میں کھڑے ہیں۔ (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض ضم شدہ قبائلی اضلاع سے متصل افغان سرحدوں کی 15 سالوں سے بندش کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے اور ہزاروں افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

دو ہزار 640 کلومیٹرز طویل سرحد پر مجموعی طور پر 235 کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سرکاری طور چھ سرحدوں پر قانونی طور پر آمد ورفت اور تجارت کی جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں طورخم، انگور اڈا، خرلاچی اور غلام خان جب کہ بلوچستان کے ساتھ چمن اور بدین شامل ہے۔

ان کراسنگ پوائنٹس میں سے بیشتر پرغیر قانونی آمد و رفت اور تجارت کی جاتی تھی لیکن سرحد پر باڑ لگانے سے ان گذرگاہوں کے ذریعے نہ صرف سمگلنگ میں کمی آئی ہے بلکہ غیر قانونی آمد ورفت اور دہشت گردوں کے داخلے کا راستہ بھی کسی حد تک رک گیا ہے۔

ضم قبائلی اضلاع کے سرحدی علاقوں کے تاجر حکومت سے ان سرحدوں پر سہولیات کی فراہمی اور پھر سے تجارت کے لیے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ افغانستان سے تجارت کی بندش سے لائے جانے والی اشیا کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تاجروں کی جانب سے بار بار سرحدیں کھولنے کے مطالبے پر کسی بھی حکومت نے غور نہیں کیا۔

تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا  کے نئے ضم اضلاع  میں ضلع اورکرزئی کے علاوہ تمام  قبائلی اضلاع کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ منسلک ہیں۔

ماضی میں ان اضلاع کے راستے افغانستان کے ساتھ آمدورفت اور تجارت کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ ضلع باجوڑ اور مہمند کے ساتھ ملحقہ افغان سرحدیں آمدورفت اور تجارت کے لیے گذشتہ 15سال سے بند ہیں۔

ان علاقوں کے اکثریت کا  زندگی کا دارومدار افغانستان کے ساتھ تجارت سے وابستہ رہا۔ ماضی میں ضلع اورکزئی کے علاوہ تمام قبائلی اضلاع کے ساتھ افغانستان کے متعدد سرحدوں پر دو طرفہ تجارت ہوتی رہی۔ 

ان سرحدی علاقوں میں ضلع باجوڑ کے ساتھ تین کراسنگ پوائنٹس نواں پاس، غاخی پاس اور لیٹی پاس ہیں۔ان راستوں سے آمدو رفت کے ساتھ ساتھ تجارت بھی ہوتی رہی۔

باجوڑ کی ان گذرگاہوں کا سال 2008 میں فوجی آپریشن سے قبل ضلع باجوڑ کی تجارت کا سب سے زیادہ دارومدار انہی کراسنگ پوائنٹس پر تھا، جنہیں بند ہوئے 15سال ہوگئے ہیں۔ ان دشوار گذار راستوں کے ذریعے افغانستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر دیودار کی قیمتی لکڑی اور گاڑیوں کے پرزہ جات کے علاوہ کپڑے اور ماربل کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ جس سے ہزاروں افراد کا روزگار تھا۔

باجوڑ میں ان راستوں کے زریعے افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے والے تاجر رہنما اور باجوڑ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر حاجی لعلی شاہ پختون یار ان راستوں کی طویل بندش کو علاقے میں غربت اور معاشی استحصال کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’بار بار حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان راستوں کو کھول دیا جائے تاکہ علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔ روزگار ہو تو امن بھی آئے گا۔‘

حاجی لعلی شاہ نے مطالبہ کیا کہ ضلع باجوڑ کے بند تجارتی راستوں کو شمالی وزیرستان کے کراسنگ پوائنٹ یا غلام خان کی طرح کھول دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ضلع باجوڑ کے تجارتی راستے کھولنے سے علاقہ میں امن اور استحکام آسکتا ہے۔‘

ایک اور سرحد (نواں پاس) پر تجارت کرنے والے ناواگئی کے رہائشی باجوڑ کے قبائلی امور کے ماہر شیخ جہانزادہ کو یاد ہے کہ ’جب 2006 سے پہلے تاجر یہاں آتے تھے اور یہاں کے تاجر تجارت کے لیے افغانستان جاتے تھے۔ لیکن غیر یقینی حالات کی وجہ سے یہ راستہ بند کر دیا گیا ہے۔‘

ناواپاس کا ذکر کرتے ہوئے شیخ جہانزادہ نے کہا کہ ’یہ تین افغان صوبوں اور پاکستان کے دو قبائلی اضلاع کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک بنا سکتا ہے، اور یہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے قریب بھی ہے۔‘

شیخ جہانزادہ  کا کہنا تھا کہ انہیں وہ وقت یاد ہے ’جب 2006 سے پہلے لوگ آزادانہ آتے جاتے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی تھی افغانستان سے تاجر عمارتی لکڑی، خشک میوہ جات اور تازہ پھل پاکستان لاتے تھے اور جب یہاں سے آٹا، چینی، چاول، دالیں افغانستان لے جاتے تھے۔‘

شیخ کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ راستہ دوبارہ کھول دیا جائے تو ہزاروں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب پیچیدگیاں ہیں۔‘

سال 2006 سے قبل ضلع باجوڑ کے سرحد نواں پاس سرحد پر کریانہ سٹور کے مالک سیدان گل سے جب اس سلسلے میں  بات کی گئی تو اپنے تجارت کے اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وہ اپنے علاقے میں  باعزت طریقے سے برسر روزگار تھے لیکن راستوں کی بندش کے فیصلے نے انہیں پنجاب جانے پر مجبور کیا اور آج کل لاہور شہر میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔‘

سیدان گل کہتے ہیں کہ ’اپنے گاؤں میں روزگار کا فائدہ یہ تھا کہ شام کو گھر جاتے تھے لیکن اب گھر سے سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کما رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تجارتی صنعت کے ٹھپ ہونے کے بعد سے ہزاروں لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‘

سیدان گل کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے  یہاں ہزاروں لوگ برسر روزگار  تھے لیکن 2006 میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سے یہاں کی سرحدیں بند کر دی گئیں۔‘

افغانستان کا مشرقی صوبہ کنڑ 2006 تک باجوڑ اور مہمند (اضلاع) کے راستے پاکستان کے لیے لکڑی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا جب لکڑی کی برآمد پر پابندی عائد کی گئی تو اس وجہ سے صرف ان دو اضلاع میں تقریباً 20 ہزار افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کنٹر صوبے میں بھی بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ باجوڑ کے عوام آج بھی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر پابندی ہٹا دی جائے تو بڑی تعداد میں بے روزگار لوگوں کو روزگار مل جائے گا۔

افغان صوبہ کنڑ سے لکڑی کا کاروبار کرنے والے سابق تاجرمحسن نے کہا کہ ’جب لکڑی کا کاروبار ہوتا تھا تو دونوں ممالک کے مابین بہترین تعلقات کی وجہ سے  دیگر کے علاوہ لکڑی کے کاروبار سے بھی ہزاروں لوگ وابستہ تھے آسانی سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف تجارت کرتے تھے بلکہ غمی خوشی میں برابر کے شریک ہوا کرتے تھے۔‘

 محسن کا کہنا ہے کہ ’سرحد کی بندش سے نہ صرف معاشی تباہی آئی ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی خراب ہوتے رہے اور معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امن کے دنوں میں ان گذرگاہوں پر متعدد ہوٹل تھے جن میں ہزاروں لوگ برسر روزگار تھے ان میں خورشید بھی تھے جن کا پاک افغان سرحد پر ہوٹل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان کاروبار ہمارے ہوٹلوں کے کاروبار کے چلنے کا  ایک بہت بڑا ذریعہ تھا اورہماری آمدنی بہت اچھی تھی لیکن سرحدوں کی بندش کے حکومتی فیصلے نے انہیں معاشی طور پر بہت کمزور کردیا ہے۔‘

خورشید کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کے لئے ہوٹل کھولا تھا جو سرحد پار تجارت سے وابستہ تھے لیکن اب اس چھوٹے سے کاروبار سے گزارا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

صوبہ کنڑ میں تاجرایسوسی ایشن کے صدر حاجی جلال کے مطابق، پاکستان کے ساتھ کاروبار دوبارہ شروع کرنے کی متعدد بار کوششیں کی گئی ہیں، لیکن دونوں جانب کے حکمران  سرحدوں کی بندش کے خاتمے کے لیے تیار نہیں۔

جلال نے وضاحت کی کہ ’تاجروں کو ایک بار برآمدات دوبارہ شروع کرنے کی اجازت کچھ شرائط پر دی گئی تھی لیکن یہ صرف تھوڑے عرصے تک جاری رہی۔ اور لکڑی کو کچی شکل میں برآمد نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ تیار شدہ سامان کے طور پر، جیسے الماری، دروازے، اور مختلف قسم کے فرنیچر کے طور پر برآمد کیا جاسکتا تھا۔‘

ضلع مہمند افغانستان کا ایک اور سرحدی ضلع ہے یہاں کی سرحدیں بھی بند کی گئیں جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ باجوڑ کے ساتھ ساتھ مہمند کے بھی تین کراسنگ پوائنٹس ہیں جو کہ اب بند پڑے ہیں جہاں ہزاروں لوگ کاروبار کرتے تھے جو اب مشکل زندگی گزارتے ہیں۔

ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے تاجر رحیم جان نے بتایا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان گورسل بارڈر 2011 سے بند ہے۔ اس راستے کی بندش سے قبائلی علاقے کے غریب عوام کا بہت بڑا نقصان ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اہم کاروباری مراکز، افغانستان میں جلال آباد شہر، گورسل بارڈر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور ہے۔‘

جان نے کہا کہ انہوں نے تقریباً 100 افراد کو ملازمت دی تھی اور پاکستان سے سپلائی کرنے والی چیزوں میں زرعی اشیا، کھادیں، خوراک اور غیر غذائی اشیا شامل تھیں۔ ’مگر شائد یہ ہماری بدقمستی ہے کہ عسکریت پسندی کی وجہ سے راستہ اچانک بند ہو گیا اور قبائلی اضلاع کے تاجروں کا کاروبار بری متاثر ہوا۔‘

ایک اور تاجر رہنما رحیم جان کا کہنا ہے کہ ’سرحد کے اچانک بند ہونے سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا کاروبار ختم کردیا گیا اور اب وہ سخت مشکلات کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تجارتی راستوں کا کھلنا سرحد کے اس پار غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ہزاروں بے روزگار لوگوں کے لیے اُمید کی کرن اور نئی زندگی کا آغاز ہو گا۔‘

افغانستان سے سامان پہنچانے والے میاں منڈی بازار کے ایک تاجر فیاض خان نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستے بند ہونے سے سینکڑوں ڈرائیورز، ہیلپرز اور مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔‘

ٹائر ڈیلر علی گوہر نے بتایا کہ ’تاجر علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں منڈی مارکیٹ میں تقریباً 1,000 قبائلی کام کرتے تھے لیکن سرحد کی بندش نے اب انہیں بے روزگار کر دیا ہے۔‘

غلنئی کے ایک دکاندار حاجی مینادر نے بتایا کہ ’راستے کی بندش سے قبل تیل، صابن، پرفیوم، چائے، الیکٹرانک گیجٹس، جنریٹرز، شیمپو اور دیگر اشیا سرحد پار سے کم قیمت پر لائی جاتی تھیں۔ اب تو ان اشیا کی قلت ہے اور قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔‘

کراس بارڈر بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا خیال ہے کہ اگر دونوں اطراف کی حکومتیں بات چیت دوبارہ شروع کریں تو ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ جس طرح شمالی وزیرستان میں غلام خان کراسنگ پوائنٹ کھول دیا گیا ہے۔

ضلع باجوڑ کے غاخی پاس کے قریب پاکستان کی حدود میں ایک بڑا کسٹم ہاؤس بھی بنایا گیا ہے لیکن سرحد بند ہونے کی وجہ سے وہ کسٹم ہاؤس ابھی استعمال میں نہیں لایا جاسکا۔ 

باجوڑ کے ساتھ ساتھ مہمند کے بھی تین کراسنگ پوائنٹس ہیں جو کہ اب بند پڑے ہیں۔ تجارت کے حوالے سے ضلع مہمند کا گورسل گیٹ بھی اہمیت کا حامل تھا لیکن وہاں بھی دہشت گردی کی وجہ سے سرحدیں بند کی گئی۔ ضلع مہمند کے تین راستے گورسل، انارگی اور برادرہ لعل پورہ بھی افغانستان کے ساتھ منسلک ہیں۔ سب سے بڑا تجارتی راستہ گورسل کا راستہ تھا۔

 اس حوالے سے جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان کے معاون خصوصی برائے صنعت وتجارت عبدالکریم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’صوبائی حکومت نے ضم شدہ اضلاع مہمند اور باجوڑ کے دو سرحدی علاقوں گورسل اور نواں پاس کو  تجارت کے لیے دوبارہ کھولنے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں۔ اور اس حوالے سے ایف بی آر اور سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ مختلف اجلاس کیے گئے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے افغانستان کی حکومت کی ایک سرحد کو رسائی نہیں ہے جب کہ دوسری سرحد پر افغان سائڈ سے سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صوبائی حکومت کی خواہش ہے کہ یہ دونوں سرحدیں جلد از جلد کھول دی جائیں کیونکہ اس سے مقامی تجارت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش بہتر ہوجائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’متبادل کے طورپر ہم نے ضلع باجوڑ میں تجارت کے فروغ ے لیے سمال انڈسٹریل سٹیٹ کی منظوری دی ہیں اور جیسے ہی فنڈز ریلیز ہوں گے تو باجوڑ میں سمال انڈسٹریل سٹیٹ پر کام شروع ہوجائے گا۔‘

ضلع باجوڑ اور مہمند میں کاروبار کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد تجارتی راستوں کوکھول دیا جائے کیونکہ طالبان کی حکومت پاکستان کی دوست حکومت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان