افغانستان: خواتین میزبانوں کے لیے چہرہ ڈھانپنے کے حکم کا نفاذ

افغانستان میں طالبان حکام نے ٹی وی چینلز پر خواتین میزبانوں کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد اتوار کو ٹی وی چینلز پر اس کا نفاذ نظر آیا۔

طلوع نیوز کی اینکر سونیا نیازی 22 مئی 2022 کو ایک براڈکاسٹ میں طالبان کے حکم کے مطابق چہرہ ڈھانپے ہوئے، تاہم وہ اس سے خوش نہیں (اے ایف پی)

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے اتوار سے خواتین ٹی وی نیوز اینکرز کے لیے آن ایئر نقاب پہننے کے حکم کا نفاذ شروع کر دیا ہے جس کے بعد سے آن سکرین نظر آنے والی زیادہ تر خواتین میزبانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق اس فیصلے کا اعلان جمعرات 19 مئی کو کیا گیا تھا جس کی تعمیل صرف چند سٹیشنوں نے کی تھی، تاہم اتوار کو ٹی وی پر خواتین کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔ 

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وزارت نے ٹی وی چینلز کو یہ ’مشورہ‘ دیا تھا لیکن ’ٹی وی پر خواتین میزبانوں کے لیے اپنے چہروں کو ڈھانپنے کی حتمی تاریخ 21 مئی ہے، جس کے بعد اس نئی ضرورت پر عملدرآمد کا آغاز ہو گا۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ خواتین میزبان فیس ماسک لگا سکتی ہیں جیسے کرونا وبا کے دوران دیکھا گیا تھا۔ 

اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان حکام نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے کئی حکم جاری کیے ہیں، جیسے کہ سیکنڈری سکول بند کرنا اور خواتین کو عوامی جگہوں میں برقع پہننے کا حکم۔ 

ٹی وی میزبان سونیا نیازی، جو چینل طلوع نیوز کے لیے کام کرتی ہیں، بھی اتوار کو ٹی وی پر چہرہ ڈھکے ہوئے نظر آئیں، تاہم وہ اس حکم سے خوش نہیں ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نے مزاحمت کی اور ماسک پہننے کے خلاف تھے لیکن طلوع نیوز پر دباؤ ڈالا گیا کہ کوئی بھی خاتون اینکر جو اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر سکرین پر نظر آتی ہے، اسے کوئی اور ذمہ داری سونپی جائے یا اسے ملازمت سے ہٹا دیا جائے۔‘

انہوں نے کہا: ’آج ماسک نافذ ہوا ہے کل برقع ہوگا مگر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کر سکیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایک خاتون کی شناخت اس سے نہیں لینی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ہماری آواز سنے اور یہ سمجھے کہ خواتین افغانستان میں محفوظ نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ افسوس ناک ہے مگر ہم رو کر دنیا یا اسلامی امارات کو یہ دکھانا نہیں چاہتے کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ درحقیقیت میں اس کے خلاف ہوں اور میں اس حکم کی وجہ سے کبھی نہیں روؤں گی۔ مگر میں مزاحمت کرنے کی پوری کوشش کروں گی اور دوسری افغان لڑکیوں کے لیے آواز بنوں گی۔‘

طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ یہ فیصلہ ’اٹل اور غیر مفاہمتی‘ ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق طلوع نیوز کی ایک اور میزبان فریدہ سیال نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ ٹھیک ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم حجاب پہن رہے ہیں، ہم اپنے بال چھپاتے ہیں، لیکن ایک اینکر کے لیے مسلسل دو یا تین گھنٹے تک اپنا چہرہ ڈھانپنا اور بات کرنا بہت مشکل ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’(طالبان) خواتین کو سماجی اور سیاسی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں۔‘

دوسری جانب خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس چینل کے مرد اہلکاروں نے بھی اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ لیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان مردوں میں شام کے وقت خبریں پیش کرنے والے مرکزی نیوز ریڈر بھی شامل تھے۔

چینل کے ڈپٹی ڈائریکٹر خپلواک سپائی نے اتوار کو ایک فیس بک پوسٹ میں کہا: ’آج ہم بہت غمگین ہیں۔‘

دوسری جانب وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ براڈکاسٹرز نے ڈریس کوڈ کا اطلاق شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم خوش ہیں کہ میڈیا چینلز نے یہ ذمہ داری اچھے طریقے سے نبھائی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکام خواتین میزبانوں کے خلاف نہیں۔ عاکف مہاجرنے کہا ’ہمارا انہیں پبلک سے ہٹانے یا کونے میں کرنے، یا کام کرنے کے حق سے محروم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘

حامد کرزئی کی مخالفت

کابل میں مقیم سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سیوانان نیٹ ورک کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، جو جمعہ 20 مئی کو نشر کیا گیا، خواتین کے حجاب کے حوالے سے طالبان کے نئے حکم نامے پر کہا کہ سکارف اور برقعہ پہننا اسلامی نہیں ہے بلکہ ایک ثقافت ہے جو دوسرے ممالک سے افغانستان میں داخل ہوئی ہے۔

انہوں نے میڈیا میں خواتین مقررین پر زور دیا کہ وہ طالبان کے احکامات پر عمل نہ کریں اور اپنے چہرے کو نہ ڈھانپیں۔

حامد کرزئی نے مزید کہا کہ افغانستان ایک اسلامی ملک ہے اور افغان خواتین اپنے حجاب کی پابندی کرتی ہیں، لیکن طالبان کی طرف سے حکم کردہ نقاب کا مطلب اسلامی حجاب نہیں ہے۔ کرزئی نے طالبان رہنماؤں سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ایسے احکامات سے افغانستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

انٹرویو میں، کرزئی نے تمام عمر کی لڑکیوں کے لیے سکولوں کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے پر زور دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین