بھارت: ’خالص نسل‘ کی جانچ کے لیے کروڑوں کی ڈی این اے کٹس

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس منصوبے سے اپنی آبادی کے جنیاتی تنوع کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 26 مئی 2022 کو بھارتی شہر چنائے میں مختلف منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے اپنی ایک ارب 40 کروڑ آبادی میں ’خالص نسل‘ کی جانچ کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کٹس منگوانے کے اقدام کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

مقامی انگریزی اخبار دا نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی وزارت ثقافت نے اس منصوبے کے لیے 10 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا تھا جس کے تحت ڈی این اے پروفائلنگ کٹس اور جنیاتی تاریخ کی جانچ کے لیے آلات حاصل کرنے کا عمل جاری ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس منصوبے سے اپنی آبادی کے جنیاتی تنوع کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے۔

ان آلات کے حصول کا عمل دو ماہ قبل جنوبی شہر حیدرآباد میں وزارت کے سیکریٹری گووند موہن کی ماہر آثار قدیمہ وسانت شندے اور دیگر سکالرز کے درمیان ملاقات کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

وسانت شندے بنگلور میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز کے معاون پروفیسر ہیں جو ہندو اکثریتی بیانیے کی حمایت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

اس بیانیے میں اس نظریے کو مسترد کیا جاتا ہے کہ آریان نسل (برہمن اور دیگر اعلیٰ نسل سمجھے جانے والے افراد) کے لوگوں نے ہندوستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں کی مقامی آبادی (جنہیں بعد میں شودر یا کم تر نسل قرار دے کر استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا) کو ان کی زمینوں سے نکال باہر کیا تھا۔

آریان کے حوالے سے ہندو اکثریتی بیانیے کو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) کی موجودہ حکومت کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

ماہر آثار قدیمہ وسانت شندے کا کہنا ہے کہ وہ ’گذشتہ 10 ہزار سالوں کے دوران ہندوستانی آبادی میں جین کی تبدیلی اور اختلاط‘ کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے دا ایکسپریس ڈیلی کو بتایا: ’جنیاتی اختلاط کا انحصار آبادیوں کے درمیان روابط کی شدت اور اس عمل کے وقت پر ہے۔ اس کے بعد ہم واضح طور پر جنیاتی تاریخ کے بارے میں جان سکیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ بھارت میں ’خالص نسل‘ کو جانچنے کی ایک کوشش ہے۔‘

حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے رہمنا اور ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن جے رام رامیش نے ٹوئٹر پر وفاقی حکومت کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’بد قسمتی‘ قرار دیا۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’مرکزی وزارت ثقافت کی جانب سے بھارت کی جینیاتی تاریخ اور یہاں خالص نسلوں کا پتہ لگانے کے لیے ڈی این اے پروفائلنگ مشینیں حاصل کرنے کے فیصلے سے بڑھی کوئی اور بدقسمتی نہیں ہو سکتی۔ جینیاتی تاریخ ایک الگ معاملہ ہے لیکن خالص نسل کیا ہے؟‘

انتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا (اے این ایس آئی) جس کا صدر دفتر کولکتہ میں ہے، نے اس میں موجود ’سیاسی عزائم‘ کی موجودگی کے باعث پروجیکٹ کو جاری رکھنے سے معذرت کر لی ہے۔

ابتدائی طور پر 2019 میں جب اس منصوبے کا تصور پیش کیا گیا تھا تو یہ تنظیم اس کا حصہ تھی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد ’سیل لائنز اور ڈی این اے کے نمونوں کا ایک ایسا سورس تیار کرنا ہے جس کو موجودہ آبادی میں ڈی این اے کی ترتیب اور پولیمورفزم کا مطالعہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘

اے این ایس آئی نے پہلے کہا تھا کہ وہ ہاپلوڈ جینوم کی دوبارہ ترتیب کی بنیاد پر ملک بھر میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان بھارت کی آبادی کے جینیاتی تنوع کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

اس کے ذریعے ’جدید انسانوں کی افریقہ سے باہر ہجرت میں ہندوستان کے کردار کو ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کیونکہ جدید انسان نے ہجرت کے لیے جنوبی راستہ اختیار کرنے اور ساحلی خطوں کو استعمال کرتے ہوئے افریقہ سے عرب وہاں سے برصغیر اور پھر یہاں سے جنوب مشرقی ایشیا میں اور آخر میں آسٹریلیا پہنچ کر دم لیا۔

کانگریس لیڈر صدف جعفر نے ٹوئٹر پر سوال کیا: ’کیا مودی حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ خالص نسل کی پروفائلنگ کا کیا مطلب ہے؟‘

امریکہ نے اپنی 2021 کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2014 میں قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں اور قبائل سمیت اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ مہینوں میں دارالحکومت دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا جب کہ جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کو تعلیمی اداروں میں اسکارف پہننے سے روک دیا گیا ہے۔

مئی کے شروع میں وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک 65 سالہ ذہنی معذور شخص کو ’مسلمان ہونے کے شبہ میں‘ جسمانی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔

کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے لکھا: ’آخری بار کس ملک کی وزارت ثقافت نے خالص نسل کا مطالعہ کیا تھا؟ جناب وزیر اعظم بھارت روزگار کی ضمانت اور معاشی خوشحالی چاہتا ہے خالص نسل کا مطالعہ نہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا