چیئرمین نیب کی تعیناتی میں دباؤ قبول نہ کیا جائے:سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں جمعے کو ہائی پروفائل مقدمات کے حوالے سے سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کی تعیناتی میں سسٹم کے باہر سے کسی کا دباؤ قبول نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں جمعے کو ہائی پروفائل مقدمات کے حوالے سے سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی میں سسٹم کے باہر سے کسی کا دباؤ قبول نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب امید ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے۔‘

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کے ہائی پروفائل مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو زبردستی کیس بنوانے کی بات کرنے پر عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سپریم کورٹ میں ہائی پروفائل مقدمات کی تحقیقات میں حکومتی شخصیات کی مبینہ مداخلت کیس کی سماعت جمعے کو ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے، ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں شامل کون کراتا ہے؟ اٹارنی جنرل  نے کہا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے نیب نے سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے۔ نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کراتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی کیا جلدی تھی؟  اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ضابطہ اخلاق کے تحت ذاتی نوعیت کا کیس وزیر کے پاس نہیں جاتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو سزا دینے کے لیے کارروائی نہیں کر رہے۔ عدالت صرف چاہتی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔

ڈی جی ایف آئی اے  نے عدالت کو بتایا کہ شرجیل میمن سمیت آٹھ افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے ریکارڈ نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے جن مقدمات میں شواہد نہیں ہیں انہیں واپس لیں۔ عدالت  نے حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی۔ کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کے ہائی پروفائل مقدمات لا ریکارڈ طلب کرتے ہوئی کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان