پانی کی قلت حکومتی ریڈار پر نہیں

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں کراچی اور بھارت میں کلکتہ جیسے شہر 2015 جیسی گرمی ہر سال دیکھیں گے۔ 

11 مئی 2022 کی اس تصویر میں جیکب آباد کے قریبی علاقے میں خواتین پانی بھرنے کے بعد واپس گھروں کو جاتی خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے متعدد علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں رہے اور جیکب آباد میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ جیکب آباد وہی شہر ہے جس کے بارے میں گذشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ شہر ’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے۔‘

محکمہ موسمیات نے الرٹ بھی جاری کیے۔ پاکستان اور بھارت میں گذشتہ ایک دو ماہ میں جو درجہ حرارت رہا ہے اس نے تمام قومی اور عالمی ریکارڈ توڑ دیے۔ پاکستان میں مارچ 1961 کے بعد سے سب سے زیادہ گرم ترین مہینہ رہا ہے جبکہ انڈیا کے جنوب مغرب اور وسط انڈیا میں اپریل ایک صدی میں سب سے گرم ترین اپریل کا مہینہ رہا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں کراچی اور بھارت میں کلکتہ جیسے شہر 2015 جیسی گرمی ہر سال دیکھیں گے۔ 

پاکستان میں 2015 میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے بھارت میں بھی چھ ہزار 500 سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔

اسی اثنا میں سوشل میڈیا میں چولستان سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ پانی ختم ہونے سے ہونے والی خشک سالی سے درجنوں جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے چولستان کے علاقے میں خشک سالی کا ذکر کرتے ہوئے مقامی افراد کو پانی پہنچانے کے لیے جہاں اپنی کوششوں کا ذکر کیا وہیں حکام سے بھی علاقے میں فوری طور پر پانی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کا کہنا ہے کہ اس سال گرمی زیادہ پڑی ہے اور جلدی آ گئی جس کے باعث چولستان کے رہائشی تیار نہیں تھے۔ چولستان کے لوگ تو گرمی شروع ہونے سے قبل ہی نقل مکانی کر کے اس گرمی والے علاقے سے نکل جاتے ہیں۔

سنہ 2007 میں پنجاب حکومت نے چولستان کے رہائشی علاقوں میں پانی پہنچانے کے لیے پائپیں بچھانے اور پانی مہیا کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ کافی حد تک کام بھی ہو گیا یعنی انفراسٹرکچر وغیرہ کھڑا کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔  چولستان کے رہائشی اس منصوبے سے بہت خوش تھے کہ ان کے لیے اور ان کے مویشیوں کے لیے پانی آ جائے گا۔ ان کی سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ ان کے مویشیوں کے لیے چارہ اور پانی ایک ہی جگہ پر ہو جائے گا۔ لیکن ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی ان کو اپنے مویشیوں کو چارے کے لیے ایک جگہ لے کر جانا ہوتا ہے اور پانی کے لیے کافی فاصلے پر دوسری جگہ۔

چلیں وقت گزرتا گیا اور چولستان کے لوگ سوائے انتظار اور مطالبوں کے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ پھر چند سال بعد اعلان کیا گیا کہ چولستان میں ستر پانی کے ٹینک لگائے جائیں گے اور ہر ٹینک میں پچاس ہزار لیٹر پانی کی گنجائش ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بار پھر چوسلتان کی عوام انتظار اور امید لگا کر بیٹھ گئی۔

پھر 2022 میں سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرنے لگ گئیں کہ گرمی کے باعث کئی مویشی مر گئے۔ مقامی افراد نے مطالبہ کیا کہ کینلوں میں پانی چھوڑا جائے تاکہ وہ اور ان کے مویشیوں کو پانی تک رسائی حاصل ہو سکے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت کے باعث وہ خود، ان کے مویشی اور جنگلی حیات سب کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پھر کیا ہونا تھا، حکومت حرکت میں آئی اور پانی کے ٹینکر چولستان روانہ کیے گئے، مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈسپنسریاں بھیجی گئیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، لیکن پانی کے وسائل کو مینیج نہیں کیا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔

ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر مینیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔

پانی کی قلت اب بھی حکومت کے ریڈار پر نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی مربوط پالیسی یا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام 2025 تک شاید 25 کروڑ ہوچکی ہوگی۔ 2025 وہ سال ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مطلق پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ مطلق پانی کی قلت سے صرف پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ آبادی بھی متاثر ہوگی، جو ملک کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانچ ہزار سے زائد گلیشیئرز ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ