بونیر: ’خوف ناک‘ چمگادڑیں باغ بانوں کے لیے دردِ سر

جسیم چمگادڑوں نے خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر کے باغات میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں جس سے آڑو، سیب، املوک، ناشپاتی اور دیگر پھلوں کی فصلیں بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے گاؤں پیربابا میں وزنی چمگادڑوں کی موجودگی اور خوف کے باعث جہاں ایک طرف مہمانوں نے وہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے تو دوسری جانب فصلوں اور باغات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

گاؤں کے مقامی افراد کے مطابق، گلیوں، شاہراہوں پر چمگادڑوں کی ’خوف ناک‘ شکلیں دیکھ کر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی متاثر ہوا ہے۔ 

مقامی افراد نے شکایت کی کہ چار کلو وزنی چمگادڑیں دن اور رات کے اوقات میں خوف ناک آوازوں کے ساتھ کئی کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں کبھی مخصوص گلیوں میں تو کبھی درختوں پر الٹا لٹک کر علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہیں۔

20 سال سے پیر بابا کے کھیتوں میں کام کرنے والے ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جسیم چمگادڑوں کی وجہ سے آڑو، املوک، ناشپاتی، خوبانی، اور دیگر فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چمگادڑوں کی خوف ناک آوازوں سے نہ صرف مکین پریشان ہیں بلکہ ہمارے باغات بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ یہ چمگادڑیں ہزاروں کی تعداد میں باغات اور درختوں پر بسیرا کئے ہوئے ہیں۔‘

انتظامیہ کی جانب سے چمگادڑوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے زمیندار افراد باغات ختم کرکے نئے روزگار کے طرف مائل ہو رہے ہیں۔

ممتاز نے مزید بتایا کہ چمگادڑیں پانچ سے چھ فٹ لمبی ہیں۔ ان کے حملے سے پھلوں کے باغات تباہ ہونے سے کاشت کار پریشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ضلعی انتظامیہ اور محکمہ وائلڈ لائف سے دراخوست کرتے ہیں کہ چمگادڑوں کا خاتمہ کریں تا کہ باغات میں لگے پھل محفوظ رہ سکیں۔‘

ممتاز کے مطابق ’پھلوں میں سب زیادہ سے زیادہ نقصان ناشپاتی کے باغات کو پہنچا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ چمگادڑوں کی پسندیدہ غذا ہے۔‘ 

ماہر ماحولیات اکبر زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چمگاڈروں کی نئی نسل جو یہاں پر آئی ہے ان کی جسامت بہت بڑی ہے جس کی وجہ سے مختلف پھلوں کے باغات اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ زمیندار کبھی بندوقوں کے ذریعے ان کو بھگاتے ہیں تو کبھی مجسموں کے ذریعے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ یہ چمگادڑ کی نئی قسم کئی سالوں سے وجود میں آئی ہے۔ ان پر ریسرچ کی ضرورت ہے تاکہ ان کو مائگریٹ کیا جائے۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ دوسرے علاقوں سے آئے ہیں یا یہاں پر پیدا ہوئے ہیں۔‘

اکبر زیب نے بتایا اگر دوسری جگہوں سے آئی ہیں تو ان کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’دن کے اوقات میں ان کی بسنے کی جگہیں معلوم کی جائیں تاکہ وہاں جا کر انہیں ختم کیا جاسکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان