گذشتہ دنوں گلگت بلتستان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے تقریباً ہر ایک پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
یہ چند روز قبل کی بات ہے جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کرنے لگی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک بے حال نوجوان زمین پر پڑا ہے اور ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دراصل یہ نوجوان گلگت بلتستان میں وادی نلتر کی ایک جھیل میں ڈوب رہا تھا جسے لوگوں نے باہر تو نکال دیا مگر وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا۔
ایسے میں ملتان سے سیاحت کی غرض سے اس علاقے کا دورہ کرنے والا ایک جوڑا اسے بچانے کی کوشش کرتے دکھائی دیے۔
اس ویڈیو میں سب کچھ اتنا جلدی ہو رہا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے، مگر اس ویڈیو کو دیکھنے والے بھی اس لمحے خود کو وہیں محسوس کر رہے تھے۔
وادی نلتر کی ست رنگی جھیل کے قریب ڈوبنے والے اس نوجوان کو اس جوڑے نے فوری طور پر سی پی آر (مصنوعی تنفس) فراہم کرنا شروع کیا اور اس دوران خاتون اپنے شوہر کو ساتھ ساتھ بتا بھی رہیں تھیں کہ کیا کرنا ہے۔
خاتون ڈاکٹر اور شوہر کی نوجوان کو طبی امداد دینے کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی دن تک گردش کرتی رہی اور انہیں خوب پذیرائی ملی۔
ڈاکٹر قرۃ العين ہاشمی اس سارے واقعے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’یقین نہیں ا ٓرہا تھا کہ 16 سالہ نوجوان زندہ بچ جائے گا، لیکن سی پی آر کی مدد سے اس کی جان بچ گئی۔ یہ ایک خواب لگتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قرۃ العین نے کہا کہ وہ تو پہلے کی طرح اس سال بھی گرمی سے بچنے کے لیے سیر و تفریح کی غرض سے وہاں گئے تھے۔
’لگ نہیں رہا تھا کہ بچہ دوبارہ سانس لے پائے گا‘
’لیکن جب نوجوان کو زندگی و موت کی کشمکش میں دیکھا تو انسانی جذبہ اور پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہم نے وہاں پر موجود لوگوں کو ایک طرف ہٹایا اور جلدی سے اس کے جسم سے پانی نکالنے کا عمل شروع کر دیا۔‘
قرۃ العین کا بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر ڈاکٹر تو نہیں لیکن میرے ساتھ رہ کر انہیں بھی کافی طبی معاملات سمجھ آتے ہیں۔‘
’انہوں نے میری مدد کی اور ہم دونوں نے مل کر اس نوجوان کی کچھ ہی دیر میں سانسیں بحال کر دیں، جو کہ قدرت کا ایک کرشمہ کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ لگ نہیں رہا تھا کہ بچہ دوبارہ سانس لے پائے گا۔‘
ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی جو ملتان کے نشتر ہسپتال میں بطور ماہر امراض کینسر فرائض انجام دیتی ہیں۔
’پوری کوشش کی اور کسی کے بچے کی جان بچ گئی‘
ان کا کہنا ہے کہ نوجوان کی جان انہیں دی گئی تربیت کی مدد سے بچائی جس کی بالکل امید نہیں تھی۔
اس بارے میں ان کے شوہر اسرار چوہدری کہتے ہیں کہ ان کا نلتر کی طرف جانے کا ارادہ نہیں تھا لیکن نا چاہتے ہوئے بھی گاڑیاں اس طرف موڑ لیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شاید اس نوجوان کی جان بچانا مقصد تھا۔‘
’ہم نے انسانیت کے ناطے پوری کوشش کی اور کسی کے بچے کی جان بچ گئی۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کسی کو مصیبت میں دیکھیں تو اس کی مدد ضرور کریں، اسی طرح معاشرے میں دکھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔‘
واضح رہے کہ نلتر میں ست رنگی جھیل میں دو نوجوان ڈوب گئے تھے جن میں سے ایک انتقال کر گیا جب کہ دوسرے کو اس جوڑے نے بچا لیا تھا۔
’سی پی آر نصاب میں بھی شامل کیا جائے گا‘
اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد جہاں سب نے ہی اس جوڑے کو خراج تحسین پیش کیا وہیں وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں سانس کی بحالی کے مصنوعی طریقہ کار کے تربیتی پروگرام کا اعلان کیا۔
انہوں نے سٹرٹیجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی کو ہدایت کی کہ وہ طبی شعبے میں فوری طور پر یہ منصوبہ شروع کریں۔
جس پر سلمان صوفی نے ایک بیان میں کہا کہ مہم کے دوران ہر شہری کی تربیت سمیت سی پی آر پروگرام کو سکول کی سطح پر نصاب میں بھی شامل کیا جائے گا۔