ماؤنٹ ایورسٹ ’شارع عام‘ نہیں ہے

ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ جانے والے راستے پر اب آپ سر ایڈمنڈ ہلیری جیسا محسوس نہیں کریں گے، زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آپ سیلفیاں بنانے والے سیاحوں یا لیور پول فٹ بال کلب کے ایسے مداح کے ساتھ چلیں جس کے پاس ہائیکنگ کے لیے ضروری تمام سامان موجود ہو۔

مصنف جیمز ڈریون ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ پر موجود ہیں (بشکریہ جیمز ڈریون)

ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ سے نیچے دیکھیں تو کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہرطرف موجود بادلوں کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی کھڑکیوں پر دھند چھائی ہوئی ہے لیکن اپنے آپ کو یہ بتانے کے لیے کہ ہیلی کاپٹر کس طرف سے اوپر اٹھا ہوا ہے مجھے اس کے آلات کے پینل کے مصنوعی افق پر نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پیٹ کے جھکاؤ اور کانوں میں سنسناہٹ دونوں مجھے یقین دلا رہے ہیں کہ ہم حقیقت میں ایک طرف جھک کر پرواز کر رہے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود بادلوں میں وقفے سے تھوڑی دیر کے لیے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے، جس کا مجھے پہلے سے ہی علم ہے کیونکہ اس وقفے سے مجھے اپنے دائیں کاندھے کے اوپر سے صنوبرکے درختوں سے ڈھکی وادی کھٹمنڈو پریشان کن انداز میں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی دکھائی دینے لگی ہے۔

ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے وضاحت کی ہے کہ وہ رفتار کم کر رہے ہیں۔ پائلٹ نے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ  سے مجھے بچانے آنے کے لیے آنے میں گہری دھند اور ہوا کے کم دباؤ میں بڑی جرات کے ساتھ پرواز کی تھی۔ ہیلی کاپٹرکے گھاس والے عارضی ہیلی پیڈ پر اترتے وقت اس کی اور ہوا کی رفتار دونوں میں کمی آچکی تھی۔ اس موقع پر پائلٹ نے بتایا کہ ہم نے بہت تیزرفتاری سے پرواز کی۔ ہیلی کاپٹر بہت آرام سے زمین پر اترا۔

’لکلا ‘ نامی گاؤں سے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک پہنچنے میں مجھے نو دن لگے تھے۔ لکلا میں دنیا کا خطرناک ترین ہوائی اڈہ واقع ہے۔ میں بالآخر کل ہی بیس کیمپ پہنچا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے چٹانوں کے کناروں اور جھولتے پلوں پر ایک ہفتے سے زیادہ وقت تک سفر کرنا پڑا تھا۔ پلوں پر سے گزرتے ہوئے سر چکراتا تھا جبکہ بعض چٹانیں ایسی بھی تھیں جن سے بلندی کا خوف محسوس ہوتا تھا۔

ایسے کوہ پیماؤں کے برعکس جو ہر سیزن میں دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، میرا یا میرے گروپ کے ارکان کا نیپال کے جنوب میں واقع بیس کیمپ سے آگے کے سفر کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود ہمیں بلندی کی وجہ سے طبیعت کی خرابی، دھوپ کی شدت کے سبب کھال جلنے اور برفانی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں بارش کے یخ بستہ پانی، سرد ترین ماحول میں قیام اور ٹوائلٹ پیپرز کی رلا دینے والی قیمتوں جیسے مسائل سمیت ٹوائلٹ کی ایسی سہولت میسر تھی جو گٹر میں رہنے والے ’ٹین ایج میوٹنٹ ننجا ٹرٹلز‘ کے حوصلے کا بھی امتحان تھی۔

تب، واپس نیچے اترتے ہوئے میں نے چٹانی پتھروں کو پھلانگا جو شمال مشرقی نیپال میں واقع ’کھمبو‘ میں گلیشیئر کی حرکت کی وجہ سے اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس موقع پر میرے ٹخنے میں موچ آ گئی تھی۔ کھمبو کا برفانی علاقہ وہ پہلا حقیقی خطرہ ہے جس پر بیس کیمپ میں موجود کوہ پیماؤں کو اُس وقت بات کرنی چاہیے جب وہ بالآخر دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے کے لیے روانہ ہونے لگیں۔

اس مرحلے پر پہاڑی علاقے میں موجودگی کی وجہ سے طبیعت میں ہونے والی خرابی کے آثار نمو دار ہوتے ہی مجھے مزید دو مرتبہ اچھی خاصی موچ آئی۔ زیادہ بلند پہاڑوں پر طبیعت کی خرابی کی وجہ آکسیجن کی شدید کمی ہوتی ہے۔

کھمبو کی دور افتادہ وادی میں ٹخنے کی سخت موچ اور آکسیجن کی شدید کمی، کٹھمنڈو سے 100 میل کا دشوار گزار پہاڑی راستہ، پانچ ہزار تین سو میٹر کی بلندی جہاں آکسیجن سطح سمندر پر موجود آکسیجن کی مقدار سے بھی آدھی ہوتی ہے، اتنی ہی انتہا درجے کی تباہ کن تھی، جتنی وہ 1953 میں تھی جب نیوزی لینڈ کے کوہ پیما سر ایڈمنڈ ہلیری اور انڈین نیپالی کوہ پیما تینزنگ نورگے نے پہلی مرتبہ پہاڑی چوٹی کو سر کیا تھا۔ دونوں کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے جانے والی 9 ویں برطانوی مہم کے رکن تھے۔

آج مجھے ’لوبوش‘ کے دور افتادہ نیپالی گاؤں تک پہنچنے کے لیے تقریباً لنگڑاتے ہوئے چلنا پڑے گا۔ گاؤں پہنچ کر میں دنیا کی بلند ترین بیکری میں کھانے پینے کی اشیا سے لطف اندوز ہونے سمیت چھ ڈالر ادا کرکے وائی فائی کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہنگامی انخلا کے لیے ٹیلی فون کال کر سکتا ہوں۔ رات ہونے تک میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو کے ایک نجی ہسپتال میں ہوں۔

ٹیکنالوجی صرف دنیا کو ہی چھوٹا ہی نہیں کر رہی جیسا کہ پرانی کہاوت میں دعویٰ کیا جاتا ہے، بلکہ یہ پہاڑوں کو بھی چھوٹا بنا رہی ہے۔ زمین پر موجود ڈیجیٹل نیٹ ورک کی بدولت دنیا کے بلند ترین پہاڑ پر چڑھنے کے دوران بھی آپ کو سگنل مل سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ماضی میں اُس دن بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوتی جب سر ایڈمنڈ ہلیری نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا تھا تو ان لوگوں کو اس دن بھی کوئی مسئلہ نہ لگتا جنہوں نے اس روز پہاڑ  کی چوٹی سر کرنے کا خواب دیکھا تھا۔

شاید مہم جوئی کے سنہری دور کے بارے میں رومانوی خیالات کی وجہ سے پہلی بار ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ جانے والے راستے پر سفر کے دوران میں تمام وقت انٹرنیٹ سے منسلک رہا لیکن پہاڑی علاقے میں سفر کرنے والے گروپ کے دوسرے ارکان کی اکثریت کے معاملے میں صورت حال ایسی نہیں تھی۔ بیس کیمپ تک گھوم پھر کر جانے والے راستے پر صنوبر کے درخت اور’رہوڈوڈینڈرون ‘ کی سدابہار جھاڑیاں ہیں تاہم کچھ میدان بھی ہیں۔ بلندی کی طرف جاتے ہوئے جہاں درخت ختم ہو جاتے ہیں وہاں ہمالیہ کے نوکیلے پہاڑوں کے درمیان گھرے خوبصورت مناظر دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب میں گزرے دنوں کی دھندلی یادوں میں کھو کر ہمالیہ کے الگ تھلگ علاقے کو ڈرامائی تاثر لیے ہوئے ’سیپیا‘ فلٹر کے ساتھ سراہنا چاہتا ہوں، اُس وقت مہم جوئی میں شریک میرے ساتھی تصویریں ایڈٹ کرنے کے لیے انسٹا گرام کے فلٹر ’کلئرڈون اور جنگھم‘ استعمال کرنے، راستے میں سیلفیاں بنانے اور چند ہی گھنٹوں میں انہیں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عملی طور پر تمام چائے خانے، کیفے، بیکریاں اور رہائشیں، قطع نظر اس کے کہ ان کے غسل خانوں اور بیڈ رومز میں کیا بنیادی سہولتیں ہیں، معاوضے کے عوض وائی فائی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ کا 99 واں سفر کرنے والے ہمارے گائیڈ شنکر بھٹرائے بتاتے ہیں کہ 2015 کے تباہ کن زلزلے کے بعد انٹرنیٹ سروس سب سے پہلے بحال کی گئی۔ انٹرنیٹ سیاحوں کے لیے بہت اہم ہے۔

ہائیکنگ پر جانے والوں میں میرے ساتھ 12 لوگ شامل ہیں، جو عمر اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ ان لوگوں میں 18 سالہ فٹنس انسٹرکٹر سے لے کر فٹ بال کے 54 سالہ شوقین بھی جن کا تعلق گلاسگو سے ہے۔ صرف ان کی تربیت ہی 10 گھنٹے کی شفٹوں پر مشتمل تھی۔ ہمیں یہ تربیت جہاز رانی کے ایک گودام میں کروائی گئی۔ اس دوران ہمیں کھانے پینے کے لیے برگر، چپس اور کولا مشروبات دیے گئے۔ پہاڑی سفرکے لیے ان کے لباس میں لیورپول ایف سی سکارف اور جوتوں کا مخصوص جوڑا شامل ہے۔ وہ چیمپیئن لیگ میں اپنی پسندیدہ ٹیم کے بارے میں بڑے پرجوش ہیں اور اکثر اپنے فٹ بال کلب کا ترانہ گاتے نظر آتے ہیں۔

’آپ کبھی اکیلے نہیں چلیں گے‘ کے الفاظ پر مشتمل مقبول ترانہ رچرڈ روجرز اور آسکرہیمرسٹین کی موسیقار اور نغمہ نگار امریکی جوڑی نے تیار کیا جبکہ گلوکاروں کے برطانوی بینڈ ’گیری اینڈ پیس میکرز‘ نے اسے گایا۔ یہ ترانہ عجیب لیکن برمحل ہے۔

آج، ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک کا سفر صرف مہم جوؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاحوں کی بڑی تعداد اس راستے پر سفر کرتی ہے۔ یہ راستہ سپین میں ’کوسٹا ڈی سول‘ کے ساحل پر رکھے بینچ پر دھوپ تاپنے کے لیے کیے گئے سفر کے راستے سے تو یقینی طور پر بہت مختلف ہے لیکن ایک منظم سفر کی صورت میں راستے میں قیام، ریستورانوں اور تحائف کی دکانوں کی سہولت موجود ہے۔ ان سہولتوں کی موجودگی میں عام جسمانی فٹنس کے ساتھ کوئی بھی اس راستے پر سفر کرسکتا ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے مجھے اکثر قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ واپس آنے والے ہائیکرز گزر سکیں۔

سست رفتار اور بھاری بھرکم ہائیکرز کے پیچھے کئی قطاریں بن جاتی ہیں اور سیاح تنگ پہاڑی راستوں کے کنارے پر ہو جاتے ہیں تاکہ بھاری وزن اور کچرہ اٹھا کر چلنے والے مقامی لوگ جنہیں ’شرپا‘ کہا جاتا ہے، گزر جائیں۔

میری ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ آمد کے بعد دو ہفتے میں 11 مہم جو پہاڑی چوٹی سر کرنے کی کوشش میں جان کی بازی ہار گئے۔ سب سے پہلے آئرلینڈ کے 39 سالہ پروفیسر سیامس لالیس کی موت کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان اسی روز ہوا جب میں کھٹمنڈو کے ہسپتال میں علاج مکمل ہونے کے بعد ڈسچارج ہوا۔ اس سال 22 مئی کو لی گئی ایک تصویر بھی وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں کوہ پیما قطار بنا کر ماؤنٹ ایورسٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ پہاڑ پر سیاحوں کی زیادہ تعداد سانحات کا سبب بنتی ہے جبکہ ٹور آپریٹرز کی طرف سے ناتجربہ کار کوہ پیماؤں کو ایورسٹ کی بدنام ’موت کی وادی‘ میں لے کر جانے کے رجحان میں اضافہ بھی اموات کا سبب ہے۔

2019 کا سیزن خاص طور پر ہلاکت خیز ثابت ہوا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حقیقت میں دو دہائیاں قبل ایسی ہی کہانی سنانے کے لیے جون کراکور، جن کی کتاب ’اِن ٹو تِھن ایئر‘ (Into thin air) میں 1996 کے سانحہ ایورسٹ کے بارے میں ذاتی کہانی بیان کی گئی ہے، کو ’آؤٹ سائیڈ‘ نامی جریدے کی جانب سے رپورٹنگ کے لیے بھیجا گیا تھا۔

گائیڈ شنکر بھٹرائے نے مجھے بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے بیس کیمپ کی طرف جانے والے راستے پر سفر کے دوران دو ہائیکرز ہلاک ہو گئے تھے،‘ میں اس وقت بلندی کے ناکارہ کر دینے والے خوف پر قابو پاتے ہوئے دو فٹ چوڑے اس پہاڑی راستے پر گامزن تھا جس کے اطراف میں گہری کھائی تھی۔ گائیڈ چوٹی سر کرنے والوں کے بارے میں نہیں بلکہ مرنے والے اُن دو سیاحوں کی بات کر رہا ہے جو میری طرح ایورسٹ بیس کیمپ کی طرف جا رہے تھے۔ مجھے حقائق کے درست ہونے کا تو علم نہیں لیکن اس گفتگو کا بلندی کی وجہ سے مجھے آنے والے چکروں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ گائیڈ کے مطابق ایک سیاح کو یاک نے ٹکر مار کر گہرائی میں پھینک دیا جبکہ دوسرا بلندی کی وجہ سے بیمار ہو گیا لیکن وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے یہاں سے نکلنے کے لیے چار ہزار ڈالر ادا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اس کے برعکس شمالی بیس کیمپ، جو تبت کے خود مختار چینی علاقے میں واقع ہے، تک کار میں جایا جا سکتا ہے۔ اسفالٹ کی سڑک سیدھی وہاں جاتی ہے۔ عام لوگ اور سیاح آسانی کے ساتھ وہاں تک جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب آٹھ ہزار آٹھ سو 48 میٹر بلند ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کے لیے ہر سال جاری ہونے والے 300 اجازت ناموں میں سے ایک کا آپ کے پاس ہونا ضروری ہے۔ اس وقت ان اجازت ناموں کا اجرا بند ہے۔ قابل پیش گوئی مستقبل کے پیش نظر سیاحوں کا شمالی بیس کیمپ میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ بیس کیمپ پر کئی ٹن کوڑا کرکٹ موجود ہے جو سیاحوں نے اپنے پیچھے چھوڑا۔

نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ بیس کی طرف جانے والا راستہ ہمیشہ سیاحوں میں مقبول رہا ہے کیونکہ یہ خطرات، مہم جوئی، بھرپور ثقافت اور حسین قدرتی مناظر کا امتزاج ہے۔ بیس تک پیدل جانے کے حقوق پر شیخیاں ماری جاتی ہیں۔ چین سے بیس جانے والا راستہ اُن لوگوں کو پسند ہے جو دو ہفتے پیدل نہیں چل سکتے یا نہیں چلنا چاہتے۔ چین کی طرف سے پہاڑی چوٹی کو جانے والے راستے پر سیاحوں کو ’رونگ بک‘ کی مسیحی خانقاہ سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ شمالی بیس کی بندش کی وجہ سے فٹ بال کے کھیل اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے معاملے میں پہاڑ کا نیپال والا حصہ کس طرح متاثر ہوا ہے۔

کینیڈا کے ٹور آپریٹر ’جی ایڈونچرز‘ کی ایشیا میں جنرل مینیجر جولی فٹز جیرالڈ کہتی ہیں کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ ماؤنٹ ایورسٹ کا چین میں واقع بیس کیمپ کبھی دوبارہ کھولا جائے گا۔ ان کے خیال میں اب تک تو یہی صورت حال ہے۔

ہم کھٹمنڈو میں ملے تھے۔ کچھ دن پہلے میں کھمبو کے علاقے سے واپس آیا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایورسٹ کا نیپال والا حصہ متاثر نہیں ہوا۔ شمال کی طرف سے ایورسٹ جانے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کی دلچسپی کا محور تبت کا علاقہ تھا جبکہ نیپال والا راستہ ہمیشہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایورسٹ کے بیس تک سیدھی سادی اور روایتی ہائیکنگ کرنا چاہتے ہیں۔

ایورسٹ بیس کیمپ کا راستہ آج کل خالصتاً سیاحت کی وجہ سے اپنا وجود رکھتا ہے۔ پورے راستے میں موجود مقامی شرپا برادریاں خاص طور پر اُن عالمی سیاحوں کا خیال رکھتی ہیں جنہیں دنیا کے مشہور ترین پہاڑ کی کشش کھینچ لاتی ہے لیکن سیاحت کی واضح ترقی کی بدولت راستے پر سیاحوں کی تعداد زیادہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔

سفر کے دوران میرے پوچھنے پر ہمارے گائیڈ شنکر بھٹرائے نے تصدیق کی کہ چین کی طرف سے ماؤنٹ ایورسٹ کو جانے والا راستہ بند ہونے سے نیپال والا راستہ زیادہ مصروف نہیں ہوا (میں نے راستے میں رک کر سانس بحال کی تھی)۔ گائیڈ کا کہنا تھا کہ چین کے مقابلے میں نیپال والے راستے پر اس سے چند ہی سیاح زیادہ ہیں جتنے کبھی ہوتے تھے۔

’دغلا‘ نام کے درے کی یخ بستہ بلندیوں تک پہنچتے ہی مجھے برفانی طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جگہ بلندی پر واقع ایک خوفناک یادگار ہے جو اُن لوگوں کی یاد دلاتی ہے جو یہاں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دور تک پھیلی سفید برف ایک خوفناک منظر پیش کرتی ہے۔ وسیع ترین مقام پر عجیب سی تنگی اور ایسی قربت کا ایسا احساس ہوتا جس کی خواہش نہیں ہوتی۔

قبروں پر لگے مہیب کتبے اور مزار خاموشی کے پہرے دار، شفاف برفانی طوفان میں محض سائے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔بھوتوں کے بھوت۔

بیس کیمپ کے راستے سے چند قدم ہٹ کر ذرا صاف مقام پر جاتے ہوئے مجھے یاک کے ڈھانچے کی باقیات پڑی ملیں۔ پہاڑی کوؤں نے یاک کا گوشت کھالیا تھا۔ اس جگہ بکھرے سفید رنگ کے ٹوائلٹ پیپر کی پٹیاں یادگاری پتھروں کے درمیان لگے دعائیہ جھنڈوں سے ہم آہنگ ہو کر ہوا کی وجہ سے پھڑا پھڑا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ جگہ بیک وقت قبرستان اور پبلک ٹوائلٹ ہے۔

اگرچہ راستے میں متعد چائے خانوں اور کیفیز میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہے لیکن ان سے دور ہونے کی صورت میں بلاشبہ ہم قدرت کی فضلہ تلف کرنے کی صلاحیت پر اکتفا کرسکتے ہیں۔ لیکن پلاسٹک کی شکل میں فضلہ پھیلانے کا عمل ناقابل معافی ہے۔ یہ درست ہے کہ نو دن کی ہائیکنگ کے دوران مجھے ایک جگہ عجیب سی بوتل، پینےکے بعد سگریٹ کے باقی بچ جانے والے مٹھی بھر حصے، چند ٹوکریاں اور کھانے پینے کی میٹھی اشیا کے ریپرز پڑے ملے۔ راستے میں ہائیکنگ میں استعمال ہونے والے پولز کے پیندے میں لگی پلاسٹک کی تھالیاں بھی پڑی پائی گئیں جو پولز کو زمین میں دھنسنے سے روکتی ہیں۔ یہ تھالیاں بڑی تعداد میں گم ہو جاتی ہیں۔ اس راستے پر سفر کرنے والے افراد کی تعداد کو دیکھا جائے تو اس حساب سے اس کا کچھ نہیں بگڑا۔ راستے میں کئی مقامات کو بھونڈے انداز میں کاٹ کر لوگوں کے قیام اور بیٹھنے کے لیے تیار کیا گیا۔ پتھر کاٹ کر انہیں بنچوں کی شکل دی گئی ہے جن کے ساتھ ہی کوڑدان بھی بنے ہوئے ہیں۔

گائیڈ شنکربھٹرائے کے مطابق نیپال میں کوڑا پھیلانا معمول کی بات ہے۔ جب وہ جوان تھا تو میٹھی اشیا کھا کر لفافہ پھینک دیتا تھا لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ جو کچھ ہمیں ملا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔ سیاحت نیپال کی مجموعی قومی پیداوار کا پانچ فیصد ہے، اس لیے اپنے قدرتی وسائل کی دیکھ بھال کرنا اہمیت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ بیس کیمپ کی طرف جانے والے راستے پر زیادہ کوڑا نہیں ملتا۔ گائیڈ نے مزید بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ دیکھتے تو آپ کو کچھ عجیب لگتا کہ ہائیکنگ کرنے والوں کا کوڑا صاف کردیا جاتا ہے۔ نیچے بازار سے بھیجے گئے مزدور مختلف راستوں پر جا کر کوڑے دان خالی کر کے قصبے میں واپس آ جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ جانے والے راستے پر سفر کے فیصلے کی صورت میں آپ سر ایڈمنڈ ہلیری جیسا محسوس نہیں کریں گے، جو اپنے چھوٹے سے مہم جو گروپ کے ساتھ دنیا کی چوٹی پر ہائیکنگ کے لیے گئے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آپ سیلفیاں بنانے والے سیاحوں یا لیور پول فٹ بال کلب کے ایسے مداح کے ساتھ چلیں جس کے پاس ہائیکنگ کے لیے ضروری تمام سامان موجود ہو۔ یقینی طور پر آپ تنہا سفر نہیں کریں گے۔ یہ امکان بھی ہے کہ اس ڈرامائی، پُر خطر اور خوفناک راستے پر کچھ ایسے لوگ بھی مل جائیں جن کا ساتھ ملنے پر آپ شکرگزار ہوں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ کو جانے والا راستہ اس وقت نہ تو زیادہ گندہ ہے اور نہ ہی اس پر سیاحوں کی تعداد زیادہ ہے۔  

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین