قندھاری غاڑے: کڑھائی والے کپڑے جو مرد پہنتے ہیں

کوئٹہ میں آج کل مردوں کے لباس میں نئے فیشن کا اضافہ ہوا ہے جو مقامی نہیں بلکہ قندھار سے آیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں آباد افغان پناہ گزین جہاں اپنے ساتھ مختلف اور لذیذ کھانے لائے وہیں انہوں نے اپنے روایتی قندھاری غاڑے ( کڑھائی والے گلے) بھی متعارف کروائے۔

بلوچستان میں عموماً پشتون اور بلوچ قبائل کی خواتین کڑھائی والے کپڑے پہنتی ہیں لیکن قندھاری غاڑے کو مردوں نے اپنایا ہے۔

اس مخصوص لباس کا فیشن اب افغان پناہ گزینوں سے مقامی باشندوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ کوئٹہ کے پشتون آباد علاقے میں قندھاری کڑھائی والے گلے سے مزین کپڑے فروخت کرنے والے نقیب اللہ کہتے ہیں کہ یہ فیشن افغان شہر قندھار سے شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے شہروں تک پھیلا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ افغان ثقافت کا زمانہ قدیم سے حصہ ہے۔ ’جب کوئٹہ میں افغان پناہ گزینوں نے اس کو پہننا شروع کیا تو یہاں کے لوگوں نے اس کو پسند کیا۔‘

نقیب کہتے ہیں کہ یوں قندھار کی ثقافت کا یہ حصہ کوئٹہ میں مشہور ہوا اور لوگوں نے اسے بطور فیشن اپنا لیا۔

نقیب کے مطابق کچھ عرصے کے لیے ایسے کپڑوں کا فیشن دم توڑ گیا لیکن اب یہ دوبارہ فروغ پا رہا ہے جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔

نقیب نے بتایا کہ پہلے قندھاری غاڑی والے کپڑے لوگ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے دوران پہنتے تھے لیکن اب اسے عید پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کپڑے کی تشہیر میں کمپیوٹر کے ذریعے بنائے گئے ڈیزائنوں نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس سے اس کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔

’پہلے ہم یہ کڑھائی ہاتھ سے کرواتے تھے لیکن اب خاص فرمائش پر ایسا کرتے ہیں، جس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لوگ زیادہ کمپیوٹر کے ڈیزائن پسند کرتے ہیں، جس کی قیمت 1500 سے پانچ ، چھ ہزار روپے ہے جبکہ ہاتھ سے کڑھائی والے سوٹ 12 سے چالیس اور پچاس ہزار روپے تک ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارے یہ ثقافتی گلے یورپ تک جاتے ہیں۔ ہم انہیں فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے آن لائن فروخت کرتے ہیں۔‘

نقیب کہتے ہیں کہ قندھاری غاڑے کی دو قسمیں قندھاری اور ہراتی ہے، جو افغان علاقے ہرات سے منسوب ہے، اس کی لمبائی زیادہ ہوتی ہے۔

نقیب کی دکان پر آنے والے محمد رحیم نے بتایا کہ وہ عید کے لیے سوٹ خریدنے آئے ہیں۔

رحیم نے بتایا کہ ’یہ لباس مجھے پسند ہے۔ میں اس سٹائل کے کپڑے چار سال سے پہن رہا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ سستے تھےاور تین سے چار ہزار روپے میں مل جاتے تھے۔ اب مہنگائی کی وجہ سے ان کی قیمتیں پانچ سے چھ ہزار روپے ہو چکی ہیں۔

’ہم یہ لباس عید، شادی بیاہ اور عام استعمال کے لیے خریدتے ہیں اور دوسروں کی بھی تحفے میں دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا