پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور نیب آمنے سامنے

ڈی جی نیب لاہور نے اجلاس میں کہا کہ ’آپ خواتین کی ہراسانی کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں پر خواتین مردوں کو ہراساں کرتی ہیں۔ ایک ایسی عورت جس پر دھندا کرنے کی 40 ایف آئی آرز کٹی ہوں اس کی درخواست پر مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہماری بھی کوئی عزت ہے۔‘

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم سات جولائی 2022 کے اجلاس کی صدرات کر رہے ہیں (پی اے اسی ویب سائٹ)

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بدھ کو اجلاس شروع ہوتے ہی کمیٹی چئیرمین نور عالم خان نے گزشتہ روز سمن کیے جانے والے قائم مقام چئیرمین نیب اور ڈی جی نیب لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ہمارے لیے محترم ہیں، آپ سے ہمارا کوئی ذاتی رنجش نہیں نہ ہی ہم نے آپ سے کوئی غیر قانونی بات کی۔‘

نور عالم نے کہا کہ ’یہاں رسا کشی شروع ہو گئی ہے، سیاست دان سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، احتساب عدالت کے چکر لگاتے ہیں۔ نیب مارشل لا دور کی پیداوار ہے۔ نیب 20 سال میں اپنے سروس قوانین تک تبدیل نہیں کر سکی۔ نیب افسران نے اثاثے ظاہرنہیں کیے۔ ایک سابق چئیرمین نے اپنے دفتر اور اتھارٹی کا غلط استمعال کیا، اس کے احتساب سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟‘

قائم مقام چئیرمین نیب ظاہر شاہ نے جواب دیا کہ ’جب بھی آپ نے ہمیں بلایا ہم آ گئے۔ آپ نے نوٹس میں سیکرٹری وزارت داخلہ کو کہا کہ ان کی حاضری یقینی بنائیں۔ سابق چئیرمین کے معاملے پر آپ نے نوٹس لیا ہے، کابینہ نے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔‘

15 جولائی 2022 کو وفاقی کابینہ نے طیبہ گل کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک خود مختارکمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

نور عالم کا کہنا تھا کہ کمیٹی اجلاس میں ’جو انکوائریز بند کی گئیں انہیں دوبارہ کھولنے کا کہا، آپ نے کہا کہ 15 روز میں کھولیں گے۔‘

ظاہر شاہ نے جواب دیا کہ ’ہم نے قانونی ٹیم سے مشاورت کی ہے، انہوں نے ہمیں عدالت سے رجوع کا مشورہ دیا۔ اسی وجہ سےہم نے عدالت میں پٹیشن دی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اثاثوں کے معاملے پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے کیونکہ اسی سروس گروپ کے افسران کےساتھ یہ رویہ نہیں رکھا گیا، انہیں اس قسم کی ہدایت جاری نہیں کی گئی۔

نور عالم نے شہزاد سلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت جانا آپ کا حق تھا۔ آپ ہمارا کڑا احتساب کریں لیکن ہم بھی آپ کا احتساب کریں گے۔ لیکن اختیارات کے ناجائز استمعال اور ہراسانی کے معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پارلیمانی قواعد و ضوابط کے تحت پارلیمانی کمیٹی ’پبلک پٹیشن‘ کا معاملہ اٹھا سکتی ہے۔

ڈی جی نیب لاہور نے کہا کہ ’آپ خواتین کی ہراسانی کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں پر خواتین مردوں کو ہراساں کرتی ہیں۔ ایک ایسی عورت جس پر دھندا کرنے کی 40 ایف آئی آرز کٹی ہوں اس کی درخواست پر مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہماری بھی کوئی عزت ہے۔‘

خیال رہے کہ طیبہ گل نے 14 جون 2022 کو پی اے سی کو خط لکھ کر سابق چئیرمین نیب جاوید اقبال اور ڈی جی نیب لاہور کےخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

کمیٹی رکن روحیل اصغر نے کہا کہ ’ہائی کورٹ کو کیا یہ علم نہیں کہ پی اے سی پارلیمان کا سب سے بڑا فورم ہے؟ اس کے چئیرمین کے پاس جوڈیشل اختیارات ہیں۔ ہائی کورٹ کو پوچھنا چاہئیے تھا کہ آپ کا موقف نہیں سنا؟ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی؟ لیکن آپ یہاں نہیں آئے سیدھا ہائی کورٹ چلے گئے۔‘

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج پی اے سی کو طیبہ گل کیس میں نیب افسران کے خلاف تادیبی کارروائی سے روک دیا ہے۔

اس حوالے سے قائم مقام چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’پی اے سی کی کارروائی پر سٹے آرڈر نہیں دے رہے آپ وارنٹس وغیرہ جاری کر دیتے ہیں ایسے اقدامات سے روک رہے ہیں۔‘

نور عالم کا کہنا تھا کہ ’نیب اپنا گھر درست کرے۔ میں سپریم کورٹ بھی گیا تو وہاں بھی جج صاحبان کو جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ویڈیودکھاؤں گا کہ یہ ایک ویڈیو آئی تھی، اس پر ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور میں اس پر کارروائی کر رہا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کبھی کوئی غیر قانونی بات نہیں کی۔ ’پارلیمانی رولز کے تحت میں اداروں کو اجلاس میں بلا سکتا ہوں۔ اس پر مزید 11 اگست کو بحث کریں گے جس روز یہ معاملہ اجلاس میں آئے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس میں عدم موجودگی پر سمن

پی اے سی نے نیب کے قائم مقام چئیرمین ظاہر شاہ اور ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی کمیٹی اجلاس میں عدم موجودگی پر منگل کو وارنٹ جاری کرتے ہوئے انہیں طلب کیا تھا۔

کمیٹی نے ’ان افراد کے نہ آنے کی صورت میں پولیس کے ذریعے پیش کرنے‘ کی ہدایت بھی دی تھی۔

کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ پی اے سی کے اختیارات کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا پارلیمان کی توہین کے مترادف ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم نے نیب کا معاملہ اٹھاتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا تھا: ’آج کل ہر ایک کو پی اے سی کی حدود کو چیلنج کرنے کا شوق ہو گیا ہے، مجھے خطوط بھی موصول ہوئے ہیں، افسران احتساب سے بھاگ رہے ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ پارلیمان کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا لیکن ڈی جی نیب ہائی کورٹ چلے گئے ہیں۔‘

سات جولائی 2022 کو طیبہ گل نامی خاتون نے کمیٹی اجلاس میں سابق چئیرمین نیب جاوید اقبال اور موجودہ ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

پی اے سی کے اختیارات اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج

قائم مقام چئیرمین نیب نے منگل کو پی اے سی کے اختیارات کو اسلام آباد ہائی کورٹ مں چیلنج کرتے ہوئے درخواست میں 24 جون کو کمیٹی کے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے جبکہ سات جولائی کو ہونے والے اجلاس کی کارروائی کو کالعدم کرنے کی استدعا کی تھی۔

ظاہر شاہ نے پی اے سی اجلاس کے منٹس چیلنج کرتے ہوئے درخواست میں چئیرمین پی اے سی، سیکرٹری قومی اسمبلی، سیکرٹری پارلیمانی امور، ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈائریکٹر پی اے سی اور کو فریق بنایا ہے۔

رجسٹرار آفس نے اعتراضات کے ساتھ درخواست بدھ کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

اس کے علاوہ ڈی جی نیب نے کمیٹی اجلاس میں بھی طلبی کے خلاف درخواست کے حوالے سے طیبہ گل کیس میں فریق بننے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں باضابطہ  طور پر درخواست جمع کروائی تھی۔

ان کی درخواست پر سماعت بھی بدھ کے لیے مقرر تھی۔

یاد رہے کہ کمیٹی نے 24 جون کو ہونے والے اجلاس میں نیب افسران کے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان