بی آر ٹی کے لیے چار ایوارڈ مگر کچھ شہری اب بھی سفر سے قاصر

پشاور کی بس سروس کے لیے اتنے ایوارڈ جہاں خوشی کی بات ہے وہیں اس منصوبے میں کچھ کمیاں بھی ہیں، جن کو یاد رکھنا اور دور کرنا اور بھی ضروری ہے۔

بی آر ٹی پشاور کی ایک بس سڑک پر چلتے پوئے۔ 

بس سروس جہاں لاکھوں افراد، خصوصاً خواتین، کی زندگیوں میں آسانی لائی ہے، وہیں کچھ ایسے شہری اب بھی ہیں جن کے لیے یہ سہولت استعمال کرنا اتنا آسان نہیں۔(ٹرانس پشاور)

پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ میں جدت لانے والا بی آر ٹی منصوبہ ایک ہی سال میں چار ایوارڈ اپنے نام کر کے پاکستان میں ریکارڈ قائم کرچکا ہے۔ تاہم، ایوارڈز پر ایوارڈز حاصل کرنے والا یہ منصوبہ جو ترقی پذیر پشاور میں جدت، آسانی، آرام اور ماحول دوست ہونے پر سرخرو ہوا ہے، اس میں سینیئر سیٹیزنز، معذور اور لاغر مسافروں کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔

بی آر ٹی پشاور کا انتظام سنبھالنے والے ادارے ٹرانس پشاور کے مطابق بی آر ٹی پشاور کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے افراد کے فورم ’ٹرانسپورٹ ٹکٹنگ گلوبل‘ نے حال ہی میں ’بہترین سمارٹ ٹکٹنگ پروگرام‘ کا ایوارڈ دیا ہے، جو اسے دو لاکھ سے زائد مسافروں کو سمارٹ ٹکٹنگ کے ذریعے ان کی زندگی آسان بنانے پر دیا گیا۔

بی آر ٹی پشاور کو ایک ہی سال میں ملنے والا یہ چوتھا ایوارڈ ہے۔ اس سے قبل پہلا ایوارڈ نو فروری کو، دوسرا ایوارڈ 17 فروری کو، جبکہ تیسرا ایوارڈ جون میں ملا تھا۔

یہ تینوں ایوارڈ مختلف امریکی اداروں کی جانب سے ملے تھے، جو کہ ہر سال دنیا بھر کے بس منصوبوں کو جدت، عافیت، آسانی، پائیداری، صارفین کی قبولیت، بسوں کے دورانیے اور ماحول دوست ہونے پر منتخب کرتے ہیں۔

مختلف ممالک میں بس کمپنیاں ان ایوارڈز کے اعلان کے بعد خود ہی اس میں نامزدگی کی درخواست جمع کرتی ہیں، اور وضاحت کرتی ہیں کہ وہ کیوں اس ایوارڈ کی اہل ہیں یا انہیں کیوں منتخب کیا جائے۔

پشاور کی بس سروس کے لیے اتنے ایوارڈ جہاں خوشی کی بات ہیں وہیں اس منصوبے میں کچھ کمیاں بھی ہیں، جن کو یاد رکھنا اور دور کرنا اور بھی ضروری ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ

بی آر ٹی پشاور کو جن بنیادوں پر ایوارڈ ملتے رہے ہیں، ان  میں ایک انتہائی اہم نکتہ نظر انداز ہوا ہے۔ بی آر ٹی جو جدت، آسانی، سمارٹ نظام، اور عافیت کا دعویٰ کر رہی ہے، اس میں معذور، لاغر، بیمار اور بزرگ شہریوں کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس میں سفر کرنے سے قاصر ہے۔

تقریباً 71 ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے میں تمام سٹیشنوں کو بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں یعنی ایسکیلیٹرز فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ جن چند ایک میں ایسکیلیٹرز ہیں، وہ بھی بعض اوقات بند رہتے ہیں۔

اسی طرح تمام سٹیشنوں پر لفٹ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے، جبکہ جہاں سہولت ہے وہاں بھی کچھ لفٹ فنی خرابیوں کی وجہ سے کئی ماہ سے مستقل طور پر بند ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ بسوں کے اندر دروازے کے عین سامنے والی نارنجی رنگ کی سیٹیں بزرگ، بیمار اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں، وہاں اکثر عام شہری براجمان ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ 65 سال سے زائد عمر کے شہری، جو قانونی طور پر سینیئر سیٹیزن ہیں، ان کے لیے مفت یا رعایتی ٹکٹوں کا بندوبست نہیں اور نہ کارڈ کی جگہ موقع پر پیسے وصول کرنے کا انتظام ہے۔

اس کی ایک تازہ مثال ایک ہفتہ قبل کی ہے، جب حیات آباد میں مقیم وزیرستان کی ایک 70 سالہ خاتون پہلی دفعہ بی آر ٹی میں کارخانو مارکیٹ تک سفر کرنے کا تہیہ کرکے گھر سے نکلیں۔

خاتون کے مطابق، اول تو انہیں بی آر ٹی کی کسی انتظار گاہ سے یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ کون سی گاڑی کس جانب جارہی ہے، لہذا وہ زرغونی مسجد کے آس پاس تین انتظار گاہوں میں صحیح معلومات نہ ہونے پر شدید گرمی میں گھومتی رہیں اور آخرکار فیصلہ کیا کہ جو بھی بس ملے اس میں سوار ہو جائیں گی۔

خاتون نے ہمیں بتایا کہ جب وہ انتظار گاہ کے پاس پہنچیں تو فٹ پاتھ کی اونچائی کی وجہ سے ان کے لیے چڑھنا مشکل تھا۔ اسی دوران بس آئی اور جیسے ہی انہوں نے بس میں قدم رکھا، ایک خاتون کنڈکٹر نے ان سے کارڈ مانگا، جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھیں۔

بزرگ خاتون نے بتایا کہ وہ عجلت میں پرس ٹٹولنے لگیں، لیکن کنڈکٹر اس انتظار پر آمادہ نہ تھیں۔

انہوں نے بتایا: ’جب کارڈ ملا، اور کنڈکٹر کو ساتھ میں پانچ سو روپے کا نوٹ دیا تو انہوں نے فوراً گاڑی سے اترنے کا کہا، لیکن تب تک دروازہ بند ہوچکا تھا، اور مجھے اگلی انتظار گاہ میں اترنے کا کہا گیا۔ اس دوران دوسری مسافر خواتین میں سے کسی نے میری جگہ ایک اضافی کارڈ پیش کیا، لیکن مسئلہ اس سے بھی حل نہ ہوسکا۔‘

بزرگ خاتون نے بتایا کہ اس روز گرمی کی شدت بہت زیادہ تھی اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ انہیں راستوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔ لہذا جب ایک انجانی سڑک کی انتظار گاہ پر کنڈکٹر نے انہیں اتارنا چاہا تو دوسری مسافر خواتین ان کے لیے ڈٹ گئیں، تاہم کارڈ کنڈکٹر نے ضبط کر لیا۔

ان کا کہنا تھا: ’جب سٹیشن آیا، تو کنڈکٹر خاتون نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا، اور  اوپر کی منزل پر مینیجر کے دفتر بلایا۔ مجھے بجلی والی سیڑھیوں پر چڑھنا نہیں آرہا تھا، اس لیے پشت کے بل گرنے سے ایک نوجوان نے بچا لیا۔ مینیجر نے کہا کہ ادارے کے اصول وقواعد کے تحت مجھ سے ڈیڑھ سو روپے جرمانہ لیا جائے گا، جس کو ادا کرنے کے بعد ہی مجھے جانے دیا گیا۔‘

جہاں بی آر ٹی کی جدت اور آسان سفر کے دعوؤں کی بات ہے، تو اس میں کوئی شک تو نہیں ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس سروس کو حاصل کرنے کے لیے سٹیل کی 10 سے زائد عمودی سیڑھیوں پر جب ایک نوجوان شخص بھی چڑھتا اور پھر 10 سیڑھیوں سے نیچے سٹیشن میں اترتا ہے تو اس کی سانسیں پھول جاتی ہیں اور پاؤں جواب دینے لگ جاتے ہیں۔ پھر کہاں ایک کمزور، بیمار، معذور یا بزرگ شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ ان تمام دشواریوں کو عبور کرسکیں گے۔ ایسے میں  شدید گرمی اور حبس کے اس موسم میں ٹھنڈی ائیر کنڈیشنڈ بی آر ٹی بس تک پہنچنا ایک حسرت ہی رہ جاتی ہے۔ 

پشاور کے ایک شہری محمد اکبر جو ایک پاؤں سے معذور ہیں اور سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے انہیں دقت کا سامنا رہتا ہے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسے حال میں جب بی آر ٹی سٹیشنوں پر بہت زیادہ رش بھی ہوتا ہے ان کی مشکل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’بی آرٹی اچھا منصوبہ ہے، لیکن اگر ہم جیسے معذوروں کو اس میں سہولت دی جائے تو یہ منصوبہ مزید کامیاب ہو جائے گا۔ یہ سیڑھیاں کافی زیادہ ہیں، جب بچے بھی ساتھ ہوں اور رش بھی ہو تو اوپر چڑھنے اور اترنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘

ان تمام عوامل کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ عوام کی اکثریت کے لیے اوبر، کریم، ٹیکسی یا ویگن میں سفر کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

حکومت نے بی آر ٹی کا منصوبہ شروع کرنے کے بعد ویگن مالکان کو 90 کروڑ کی ادائیگی کرکے 618  پرانی بسوں اور فورڈ ویگنوں  کی ایک بڑی تعداد کو تلف کیا تھا، اگرچہ اب بھی پشاور میں اکا دکا کوئی بس یا ویگن نظر آجاتی ہے، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

لہذا اب عوام کے پاس عام بسوں اور ویگنوں کا سستا ٹرانسپورٹ نظام بھی نہیں رہا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے حیات آباد، یونیورسٹی ٹاؤن جیسے پوش علاقوں کے مکینوں کو زیادہ مسئلہ ہوا ہے، کیونکہ ان علاقوں سےگزرنے والی اے ون، بی ٹو، اور سکس بی بسیں چلنا بند ہوگئی ہیں۔

طالبات ہوں یا کام کرنے والی خواتین یا پھر گھر کے لیے سودا سلف لانے والی خواتین سب بی آر ٹی میں ہی سفر کرتی ہیں، جن کی تعداد، ٹرانس پشاور کے مطابق، دو فیصد سے 25 فیصد ہوگئی ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بسوں کے اندر ان کے لیے جو جگہ مختص کی گئی ہے وہ ان کے لیے کم پڑ گئی ہے، اس کے باوجود کے اب بسوں کی تعداد 244 ہوگئی ہے۔ خواتین کی زیادہ تعداد اور کم جگہ کی وجہ سے روزانہ ہر بس میں دھکم پیل کی صورت حال ہوتی ہے، جس میں بزرگ، معذور اور بیمار خواتین سفر کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

ایسے میں اگر حکومت وقت ٹرانس پشاور کے احاطے میں کئی ماہ سے کھڑی ’پنک بسوں‘ کو صرف خواتین کے لیے مختص کرکے انہیں بی آر ٹی روٹس پر چلائیں، تو ایک بہت بڑی ریلیف مل سکتی ہے۔

ہم نے اس حوالے سے ٹرانس پشاور سے رابطہ کیا تو ترجمان صدف کامل نے بتایا کہ سینیئر سیٹزنز کے لیے ان کی سروس مفت نہیں ہے اور نہ فی الحال ادارہ مستقبل میں ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جن جگہوں پر ایسکیلیٹرز اور لفٹ کی سہولت نہیں ہے وہاں معذور افراد کی سہولت کے لیے ریمپسس لگوائے گئے ہیں۔ 

انہوں نے معمر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے بتایا کہ فیڈر روٹس کی بسوں پر ان کی توجہ ہے اور وہ عملے کی تربیت اور شاہراہوں و انتظار گاہوں پر رہنمائی کے مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرانس پشاور اپنے مسائل کو حل کرنے میں نہایت فعال اور چوکس ہے، اور ان کی بھرپور کوشش ہے کہ بی آر ٹی کو عوام دوست بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شہری بس سروس کی ایپ بھی استعمال کر سکتے ہیں جس میں با آسانی ری چارج کرنے کی سہولت بھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان