نوشین کاظمی کا ایک اور ٹیسٹ: ’کسی مرد کا ڈی این اے نہیں ملا‘

ڈی این اے رپورٹ میں میں نوشین کاظمی کے بالوں، کپٹروں اور جسم کے سواب سیمپلز سے کسی مرد کے اجزا یا ڈی این اے نہیں ملا۔ تاہم نوشین کے گلے میں بندھی رسی سے نامعلوم لڑکی سمیت مختلف ڈی این ایز ملے ہیں۔

چانڈکا میڈیکل کالج کی طالبہ نوشین کاظمی کی پنکھے سے لٹکی لاش 24 نومبر 2021 کو کالج کے ہاسٹل میں پائی گئی تھی (سکرین گریب)

چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کی طالبہ نوشین کاظمی کا دوبارہ کیے جانے والے ڈی این اے کی رپورٹ منظرعام پر آ گئی ہے جس کے مطابق نوشین کے بالوں، جسم کے نمونوں اور کپڑوں سے کسی مرد کا ڈی این اے نہیں ملا ہے۔

نوشین کاظمی کی ڈی این اے رپورٹ سندھ فارنزک لیبارٹری کراچی نے جاری کی ہے۔

ڈی این اے رپورٹ میں میں نوشین کاظمی کے بالوں، کپٹروں اور جسم کے سواب سیمپلز سے کسی مرد کے اجزا یا ڈی این اے نہیں ملا۔ تاہم نوشین کے گلے میں بندھی رسی سے نامعلوم لڑکی سمیت مختلف ڈی این ایز ملے ہیں۔

مگر جائے وقوعہ پر رسی کے سواب سیمپلز سے بھی ڈی این اے نہیں ملا۔

رسی سے ڈی این اے ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مخلتف پولیس اہلکاروں نے نوشین کی پنکھے سے لٹکی لاش کو اتارا تھا۔

اس طرح سندھ فارنزک ڈی این اے لیبارٹری کی رپورٹ نے لیاقت یونیورسٹی جامشورو لیب کی رپورٹ کی نفی کر دی ہے، کیونکہ لیبارٹری  نے نوشین کاظمی کی ڈی این اے رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ نوشین کے جسمانی سواب سیمپلز سے ایک مرد کا ڈی این اے ملا ہے جو کہ سابقہ خودکشی کرنے والی طالبہ نمرتا کماری کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے سے 50 فیصد تک میچ کرتا ہے۔

اس رپورٹ پر بیشتر ماہرین نے یہ کہہ کر اعتراض اٹھایا تھا کہ یا تو ڈی این اے ملتا ہے یا پھر نہیں ملتا یہ 50 فیصد والی رپورٹ حیران کن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال کی پیتھالوجی لیبارٹری نے بھی لیاقت یونیورسٹی جامشورو لیب کے برعکس رپورٹ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نوشین کے جسم سے کوئی مردانہ اجزا نہیں ملے۔

نوشین کاظمی کی لیب رپورٹس متضاد ہونے کے باعث جوڈیشل انکوائری جج نے نوشین کاظمی کے سیمپلز دوبارہ ڈی این اے کروانے کے احکامات دیے تھے۔

اس حوالے سے جامع بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے میڈیا کوآرڈینیٹر عبدالصمد بھٹی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمان کو لیاقت یونیورسٹی جامشورو لیبارٹری کی رپورٹ سامنے آنے پر پر سندھ حکومت نے جبری چھٹی پر بھیج دیا تھا، جنہیں سندھ ہائی کورٹ کراچی نے واپس اپنے عہدے پر بحال کیا۔

عبدالصمد بھٹی کا کہنا ہے کہ ’لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو لیبارٹری نے حساس رپورٹ کو میڈیا میں جاری کر کےغیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جبکہ اب سندھ فارنزک ڈی این اے لیبارٹری کراچی کی رپورٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو لیبارٹری کی رپورٹ مبینہ طور پر من گھڑت تھی اور اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔‘

خیال رہے کہ چانڈکا میڈیکل کالج کی طالبہ نوشین کاظمی کی پنکھے سے لٹکی لاش 24 نومبر 2021 کو کالج کے ہاسٹل میں پائی گئی تھی۔

نوشین کاظمی کی جوڈیشل انکوائری کے جج اب تبدیل ہو چکے ہیں تاہم انکوائری جاری ہے جبکہ ایم ایل او ڈاکٹر رخسار سموں سے بھی پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم رپورٹ فائل کروائی گئی جس میں سامنے آنے والی رپورٹ کا ذرائع کے مطابق کوئی ذکر نہیں۔

تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لیاقت یونیورسٹی جامشورو اور چانڈکا لیب رپورٹس کا ذکر کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر نمرتا کماری کی جوڈیشل انکوائری سندھ حکومت دو سال تک چھپاتی رہی جس میں جج نے وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمان کو تمام الزامات سے بری الزماں قرار دیتے ہوئے علیشان میمن اور مہران ابڑو سے مزید تفتیش کی سفارش کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان