دنیا افغانستان میں سرمایہ کاری کرے: افغان وزیر خارجہ

روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے بھی تاشقند میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب میں امریکہ سے افغانستان کے اثاثوں پر پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں افغانستان سے متعلق دو روزہ کانفرناس میں طالبان حکومت کے وفد کی سربراہی کی۔ (تصویر: امارات اسلامی افغانستان)

افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دنیا سے طالبان حكومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے جنگ زدہ ملک میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو طالبان حکومت کے ساتھ باظابطہ روابط کی ابتدا کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان کا محل وقوع، قدرتی وسائل، مستعد اور سستی افرادی قوت کی موجودگی سرمایہ کاری کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں دو روزہ (25 اور 26 جولائی) کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس میں درجنوں ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں، اور توقع ہے کہ عالمی برادری جنگ کے بعد افغانستان کے استحکام، سلامتی اور تعمیر نو کے مسائل پر بات کرے گی اور اپنی تجاویز اور حکمت عملی پیش کرے گی۔

امیر خان متقی كا كہنا تھا كہ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان سب سے قریبی اور سستا تجارتی راستہ ہے، اور ان كی حكومت سے باضابطہ روابط استوار کرنے سے دنیا کے ممالک كے لیے طویل مدتی اور جائز دو طرفہ مفادات کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔

افغان وزیر خارجہ نے دنیا كو یقین دلایا كہ طالبان حكومت اپنی بین الاقوامی كمٹمنٹس سے باخبر ہے، اور كسی گروہ كو افغانستان كی سرزمین كسی دوسرے ملک كے خلاف استتعمال كرنے كی اجازت ہر گز نہیں دے گی۔

’ہم داعش یا کسی دوسرے گروہ کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ امارات اسلامی افغانستان کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے میں دنیا کے لیے افغانستان کی قومی خودمختاری اور جائز مفادات کے علاوہ کوئی دوسری رکاوٹ نہیں ہے۔ 

’ہم امریکہ پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ افغان مرکزی بینک کے تمام ذخائر کو غیر مشروط طور پر جاری کرے، اور افغانستان پر عائد تمام اقتصادی پابندیاں ختم كرے۔‘

کانفرنس سے خطاب میں روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے بھی امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے اثاثوں پر سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں مزید كہا كہ یہ اقدامات تعلقات کو معمول پر لانےكی طرف ایک بنیادی قدم ہے جس سے امریكہ سے متعلق افغان عوام کی رائے پر مثبت اثر پڑے گا۔

امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت باہمی احترام اور جائز دوطرفہ مفادات کے فریم ورک میں دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے،  اور دوسرے ممالک سے بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔  

'اب وقت آگیا ہے کہ دنیا عدم تحفظ اور عدم استحکام کے بجائے افغان استحکام پر سرمایہ کاری کرے۔ استحکام سب کے مفاد میں ہے اور عدم استحکام سب کے لیے نقصان دہ ہے۔'

افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں کے عدم استحکام کے بعد طالبان حکومت نے افغانستان کو امن، استحکام اور اقتصادی تعاون کے مرکز میں تبدیل کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے، اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی امن و استحکام کی خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں استحکام نہ صرف پورے خطے میں استحکام کی ضمانت ہے، بلکہ علاقائی اقتصادی خوشحالی اور ترقی کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی ستون اقتصادی مرکزیت ہے۔

'اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان عملی طور پر ایشیا کے سنگم میں تبدیل ہو جائے، اور قابل اعتماد سیکیورٹی، سنجیدہ سیاسی عزم اور شفاف انتظامی ڈھانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے سازگار عناصر ہیں۔'

طالبان حكومت كے وزیر خارجہ كا كہنا تھا كہ افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط تنازعات نے ان كے ملک میں تباہی مچائی، جبکہ ان کی معیشت امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، جو غربت کا بنیادی محرک بن گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وجہ سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری اور مالیاتی لین دین متاثر ہوئے بلکہ حکومتی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا، جس سے کم آمدنی والے طبقات کو نقصان پہنچا۔ 

انہوں نے دعوی کیا کہ چیلنجوں کے باوجود طالبان حکومت نے اپنی استعداد کے مطابق تعلیم، صحت، معاشی اور دوسری خدمات فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک طویل تاخیر کے بعد طالبان حکومت افغانستان میں یونیورسٹیوں کے دروازے دوبارہ کھولنے میں بھی کامیاب رہی، جبکہ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سکول کھولے گئے ہیں۔

'ہم نے تعلیم کے شعبے میں ہزاروں ملازمتیں پیدا كرتے ہوئے سات ہزار نئی آسامیوں کا اعلان کیا۔'

امیر خان متقی نے كہ كہ افغانستان میں خواتین تعلیم، صحت اور دیگر سرکاری محکموں میں اطمینان بخش ماحول میں کام کرتی رہی ہیں، تاہم بعض علاقوں میں تاحال مناسب ماحول قائم نہ ہونے كی وجہ سے خواتین عملے کو گھروں میں تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔  

کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت نے دنیا کے ساتھ ایک عہد کر رکھا ہے، اور وہ علاقائی اور عالمی سلامتی کو افغانستان کی سلامتی سے منسلک دیکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی عوام خطے اور دنیا سے افغان سیکیورٹی کو سمجھنے میں اپنی کوششوں اور مدد فراہم کرنے کی توقع رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت امریکہ سے بھی یہ توقع کرتی ہے کہ دوحہ معاہدے کے پہلے حصے میں کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔

افغانستان میں امن و امان کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف طالبان حکومت کی پالیسی واضح ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ سال کے دوران اس کے اقدامات سے ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز نے داعش کے خلاف اچھی پیش رفت کی، جبکہ حالیہ مہینوں میں ازبکستان کی سرحد پر سیکیورٹی میں خلل ڈالنے کی ناکام کوششوں کے بعد مجرموں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا، جس میں شرپسندوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا۔

امیر خان متقی نے كہا كہ افغانستان میںسیاسی اور فوجی مخالفین کے لیے عام معافی کے ذریعے افغان سیاسی منتقلی کے ادوار میں برداشت اور قبولیت کے کلچر کی بنیاد رکھی گئی۔

انہوں نے دعوی کہا کہ عام معافی کا نفاذ کے علاوہ طالبان حکومت نے مختلف سیاسی نظریات رکھنے پر کسی کو ملازمتوں سے برطرف نہیں کیا۔

افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت نے ملک کے سیکیورٹی اداروں کو بحال کیا، اور فوج اور مقامی پولیس میں بالترتیب ایک لاکھ اور ایک لاکھ اسی ہزار نوجوانوں بھرتی کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمسایہ ممالک اور دنیا بھر میں میں امن و امان کے ممکنہ امکانات کو ختم کرنے کے لیے افغان حکومت نے تمام سیکیورٹی فورسز اہلکاروں کی بائیو میٹرک رجسٹریشن کا عمل شروع کیا۔

امیر خان متقی نے کہا کہ سابق افغان سیاسی شخصیات کی ملک واپسی کو ممکن بنانے کے لیے ایک رابطہ گروپ قائم کیا گیا ہے، جس کے باعث سابقہ ​​انتظامیہ کے متعدد سابق افسران اپنے ملک واپس آچکے ہیں۔

کانفرنس میں افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی سربراہی میں ایک وفد نے شرکت کی جس میں انس حقانی بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ازبکستان کی قومی سلامتی کے مشیر اور ازبک صدر کے نمائندہ خصوصی برائے امور خارجہ عبد العزیز کاملوف نے اتوار کی شب افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی سربراہی میں اعلی سطحی وفد کو عشائیہ بھی دیا۔ جس میں ازبک صدر کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان عصمت اللہ ارگشیف کے علاوہ وزارت خارجہ کے اعلی حکام بھی موجود تھے۔ افغان وفد میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزیر خزانہ ہدایت اللہ بدری اور افغانستان سے متعلق تاشقند میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے والے موقر وفد نے بھی شرکت کی۔

طالبان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں 20 ممالک اور تنظیموں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

چند روز قبل ازبکستان نے کہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے ان پر میزائل داغے گئے جس پر طالبان نے جواب دیا کہ میزائل داغنا ان ’شرپسندوں‘ کا کام ہے جو دو دوست ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ازبکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ بہت ممکن ہے کہ افغانستان سے ازبکستان پر پانچ میزائل داغے گئے ہوں، لیکن اس میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ چار رہائشی مکانات کو "معمولی نقصان پہنچا ہے۔

ان کے بقول ’یہ مکانات ازبکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں واقع ہیں، کیونکہ انہیں نقصان پہنچا ہے۔‘

گذشتہ اپریل میں اسلامک سٹیٹ گروپ (آئی ایس آئی ایس) نے آن لائن میڈیا میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ازبکستان کے صوبہ سرخندیار میں فوجی تنصیبات پر دس میزائل داغے ہیں۔

طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ افغان سرزمین کبھی دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

ازبکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے طالبان حکومت کے ساتھ نسبتاً اچھے تعلقات ہیں۔

کئی سالوں سے ازبکستان نے افغانستان میں استحکام اور طالبان اور سابق افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔

افغانستان کے اس شمالی پڑوسی نے 2019 میں طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ آمنے سامنے بات کرنے کی ترغیب دی۔

اسی سال تاشقند میں افغان امن پر ایک علاقائی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔

جولائی 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل، سابق صدر محمد اشرف غنی نے تاشقند کانفرنس میں پاکستانی حکام سے ملاقات کے موقع پر کانفرنس کو بتایا کہ 10,000 سے زائد جہادی عسکریت پسند افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ وہ طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

طالبان ذرائع کے مطابق تاشقند کانفرنس کے وقفے کے دوران روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف کی افغان وزیر خارجہ اور ان کے  وفد سے ملاقات کی، جس میں کانفرنس کی اہمیت اور تجارت و ٹرانزٹ سمیت کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

ضمیر کابلوف نے کانفرنس سے خطاب میں امریکہ سے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا